سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

تلاوت قرآن کےوقت سلام کا جواب دینا

  • 496
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 2997

سوال

تلاوت قرآن کےوقت سلام کا جواب دینا

 

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا قرآن کی تلاوت کرتے وقت سلام کا جواب دینا لازمی ہے؟ ازراہِ کرم کتاب وسنت کی روشنی میں جواب دیں جزاكم الله خيرا

الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد! 

جو شخص قضائے حاجت میں مشغول ہو اسے سلام کہنا درست نہیں اور نہ قضائے حاجت میں مشغول شخص کا حالت بول وبراز میں سلام کا جواب دینا مشروع ہے ۔اس کی دلیل آئندہ حدیث ہے

’’ابن عمر ﷜ ایک شخص رسول اللہ ﷺ کے قریب سے گزرا جب کہ آپﷺ قضائےحاجت کر رہے تھے ،اس نے آپﷺ کوسلام کیا تو آپﷺ نےاسے سلام کا جواب نہ دیا۔‘‘ (صحیح مسلم:370،سنن ابوداود:16،جامع ترمذی :90،سنن ابن ماجہ:فقہ الحدیث:امام نووی بیان کرتے ہیں کہ (اس حدیث کی رو سے) قضائے حاجت میں مشغول شخص کو سلام کرنا مکروہ ہے اور اس حالت میں ایسے شخص کو سلام کہا جائے تو سلام کا جواب دینا مکروہ ہے ۔(شرح النووی:4/65) اس استثنائی صورت کے سوا ملاقات کے وقت ہرمسلمان کو سلام کہنا لازم ہے ،خواہ وہ حالت نماز میں ہو،قرآن کی تلاوت میں مشغول ہویا کسی اور کام میں مصروف ہو،اس کی دلیل آئندہ حدیث ہے،

ابوہریرہ ﷜ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:

’’حَقُّ الْمُسْلِمِ عَلَى الْمُسْلِمِ سِتٌّ  قِيلَ مَا هُنَّ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ إِذَا لَقِيتَهُ فَسَلِّمْ عَلَيْهِ وَإِذَا دَعَاكَ فَأَجِبْهُ وَإِذَا اسْتَنْصَحَكَ فَانْصَحْ لَهُ وَإِذَا عَطَسَ فَحَمِدَ اللَّهَ فَسَمِّتْهُ وَإِذَا مَرِضَ فَعُدْهُ وَإِذَا مَاتَ فَاتَّبِعْهُ‘‘

مسلمان کے مسلمان پر چھ حق ہیں، پوچھا گیا وہ کیا ہے؟ یارسول اللہﷺ! آپﷺنے فرمایا: جب تو اسے ملے تو اسے سلام کہیے، جب وہ دعوت دے تو قبول کیجیے، جب وہ نصیحت طلب کرے تو اسےنصیحت کیجئے، جب وہ چھینکے اور الحمدللہ کہے تو اسےچھینک کا جواب دیجیے، جب وہ بیمار ہو تواس کی عیادت کیجیے اور جب وہ فوت ہو تو اس کےجنازے کے پیچھے چلیے۔‘‘ (صحیح مسلم:2162)۔

لہذا ملاقات کےوقت ہرمسلمان کو سلام کرنا مستحب عمل ہے جب کہ سلام کاجواب دینا فرض ہے، اس کےدلائل حسب ذیل ہیں،

1۔فرمان باری تعالیٰ ہے :

’’ وَإِذَا حُيِّيتُمْ بِتَحِيَّةٍ فَحَيُّوا بِأَحْسَنَ مِنْهَا أَوْ رُدُّوهَا إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ حَسِيبًا ‘‘

اورجب تمہیں سلام کیا جائے تواس سے اچھاسلام کا جواب دو یا اسی کے مثل لوٹادو، بےشک اللہ ہرچیز کا خوب حساب رکھنے والا ہے۔(النساء:86)

2۔ابوہریرہ ﷜ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نےفرمایا:

خَمْسٌ تَجِبُ لِلْمُسْلِمِ عَلَى أَخِيهِ رَدُّ السَّلاَمِ وَتَشْمِيتُ الْعَاطِسِ وَإِجَابَةُ الدَّعْوَةِ وَعِيَادَةُ الْمَرِيضِ وَاتِّبَاعُ الْجَنَائِزِ

مسلمان کے مسلمان پر پانچ واجبات ہیں ، سلام کا جواب دینا، چھینکنے والے کی چھینک کوجواب دینا، دعوت قبول کرنا، بیمار کی بیمارپرسی کرنا اور جنازے کی پیچھے چلنا۔(صحیح مسلم:2162،سنن ابوداود:5030 )

امام نووی ﷫ بیان کرتے ہیں:سلام کا آغاز کرنا سنت اور جواب دینا واجب ہے ،پھر اگر سلام کہنے والے لوگ زیادہ ہوں تو ان کے لیے سلام کہنا سنت کفایہ ہے ،چنانچہ ان میں سے ایک شخص سلام کہہ دے توتمام حاضرین کی طرف سے یہ سنت ادا ہو جاتی ہے اور جسے سلام کہا جارہا ہے وہ اکیلا ہو تو اس پر سلام کا جواب دینا فرض عین ہے،اور اگر وہ جماعت ہوں تو ان کے حق میں سلام کو جواب دینا فرض کفایہ ہے-اگر ان میں سے کوئی ایک شخص سلام کاجواب دے دےتو باقیوں سے گناہ ساقط ہوجاتا ہے،لیکن تمام لوگوں کا جواب دینا افضل ہے ،نیز ابن عبد البر رحمہ اللہ وغیرہ نےاس مسئلہ پر تمام اہل اسلام کا اجماع نقل کیا ہےکہ سلام کہنا سنت اور سلام کا جواب دینا فرض ہے۔(شرح النووی:14/140 )

مذکورہ دلائل سے ثابت ہوتا ہے کہ تلاوت قرآن میں منہمک شخص کو سلام کہنا مستحب عمل ہے اورتلاوت کرنے والے شخص پر سلام کا جواب دینا واجب ہے

وباللہ التوفیق

فتویٰ کمیٹی


محدث فتویٰ

تبصرے