1 ایلاء کی تعریف کیا ہے؟ ایک خاوند نے اپنی بیوی سے بدیں الفاظ علیحدگی اختیار کر رکھی ہے۔ ’’ خدا نہ تجھے میری شکل دکھائے ، نہ مجھے تیری صورت دکھائے اور ہمیں موت آلے۔ ہمارا مقدمہ بارگاہِ رب العزت میں ہی طے پائے گا۔‘‘
ان الفاظ کے بعد وہ زوجین آپس میں نہیں ملتے، ایک سال گزر جاتا ہے۔ باقاعدہ طلاق نہیں دی گئی۔ کیا مذکور بالا الفاظ طلاق کے قائم مقام سمجھے جائیں گے؟
2 مرد نے قسم یا حلف اٹھا کر متذکرہ الفاظ نہیں کہے۔ تو کیا چار ماہ کی مدتِ ایلاء کا اطلاق اس کیس پر ہوگا؟
3 خاوند اپنی بیوی کو طلاق دے ڈالتا ہے ، مگر بیوی کہیں دور ہے ، اس کو طلاق کی اطلاع نہیں ملی۔ کیا طلاق ہوجائے گی؟ جب کسی ذریعے سے بیوی سے رابطہ ہوجائے تو اسے مطلع کردیا جاتا ہے۔
4 خاوند کی کہی ہوئی یا لکھ کر دی گئی طلاق اگر بیوی وصول کرنے سے انکار کردیتی ہے تو اندریں صورت طلاق کا نفاذ ہوجائے گا؟
5 بالغ اولاد اگر بوجوہ اپنی والدہ کے موقف کی حامی ہو اور حالت ِتنازع میں یا طلاق کے بعد بھی اولاد اپنے باپ سے ملنا ہرگز پسند نہ کرے۔ اپنی انتہائی غلط کار اور مبینہ نافرمان ماں کو ہی حق پر سمجھ کر والد سے ہمیشہ کے لیے کٹ جانے کا اعلان کردے تو اس صورت میں باپ کی وراثت یا دیگر شرعی حقوق و فرائض کی ادائیگی کی کیا صورت ہونی چاہیے؟ جبکہ والد بہر حال اپنی اولاد کو اپنے پاس رکھنا چاہتا ہے، مگر فاحشہ اور انتہائی بد اخلاق والدہ نہ خود راہِ راست پر آتی ہے نہ اولاد ہی ایسا کرتی ہے۔
6 اولاد اعلانیہ کہتی ہے کہ ہمیں نہ ایسے والد کی ضرورت ہے نہ اس کی جائیداد کی اور مع اپنی والدہ کے ساری اولاد بیرونِ ملک رہائش پذیر ہو۔
خاوند کا بیوی کے پاس نہ جانے کی قسم اٹھالینا یا پختہ تاکیدی بات کہہ دینا ایلاء کہلاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآنِ مجید میں فرمایا: {لِلَّذِیْنَ یُؤْلُوْنَ مِنْ نِّسَآئِھِمْ تَرَبُّصُ اَرْبَعَۃِ اَشْھُرٍ ج فَاِنْ فَآئُوْ فَاِنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌرَّحِیْمٌ o وَاِنْ عَزَمُوا الطَّلَاقَ فَاِنَّ اللّٰہَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ o} [البقرۃ:۲۶۶۔۲۲۷] [ ’’ جو لوگ اپنی
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 صحیح سنن ترمذی ؍ للألبانی ؍ الجزء الاوّل ؍ حدیث: ۸۹۴
بیوی سے (تعلق نہ رکھنے کی) قسمیں کھائیں ان کے لیے چار مہینے کی مدت ہے ، پھر اگر وہ لوٹ آئیں ، تو اللہ تعالیٰ بھی بخشنے والا مہربان ہے۔ اور اگر طلاق کا ہی قصد کرلیں تو اللہ تعالیٰ سننے والا جاننے والا ہے۔‘‘ ]
2 متذکرہ الفاظ ایلاء میں داخل ہیں۔ لہٰذا مذکورہ بالا آیت کی روشنی میں اس معاملہ کو نپٹایا جائے گا۔ دیکھئے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے ایک خاص موقع پر فرمایا: ’’ میں آئندہ شہد نہیں پیوں گا۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے آیت نازل فرمائی۔ جس میں آپ صلی الله علیہ وسلم کی اس بات کو قسم قرار دیا۔ {قَدْ فَرَضَ اللّٰہُ لَکُمْ تَحِلَّۃَ أَیْمَانِکُمْ ط} [التحریم:۲] [’’ تحقیق اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے قسموں کو کھول ڈالنا مقرر کردیا ہے۔‘‘ ]
3 اس صورت میں بھی طلاق واقع ہوجاتی ہے۔
4 ہاں1 اس صورت میں بھی طلاق نافذ ہوجاتی ہے۔ طلاق واقع یا نافذ ہونے کے لیے بیوی کو طلاق کا علم ہونا یا بیوی کا طلاق نامہ کو وصول کرنا اسلام میں کوئی شرط نہیں اور نہ ہی لازم۔
5 اگر اولاد اپنے اس جرم یا کسی اور جرم کی بناء پر کافر دائرۂ اسلام سے خارج ہوچکی ہے اور والد مسلم ہے تو پھر وہ ایک دوسرے کے وارث نہیں ۔ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کا فرمان ہے: (( لاَ یَرِثُ الْمُسْلِمُ الْکَافِرَ ، وَلاَ الْکَافِرُ الْمُسْلِمَ۔)) 1 [ ’’ نہیں وارث ہوگا مسلمان کافر کا اور نہ کافر وارث ہوگا مسلمان کا۔ ‘‘ ]
6 جواب نمبر پانچ میں اس کا جواب بیان ہوگیا ہے۔ واللہ اعلم۔ ۱۳ ؍ ۳ ؍ ۱۴۲۲ھ