کیا فرماتے ہیں علماء کرام کہ ایک شخص جو سعودی عرب میں رہتا ہے۔ اس نے ٹیلیفون پر پاکستانی لڑکی سے نکاح کیا۔ ابھی یہ لڑکی گھر والوں سے رخصتی لے کر خاوند کے پاس تخلیہ میں نہیں جاسکی کہ خاوند نے طلاق دے دی۔ طلاق بھی ٹیلیفون پر ہی دی۔ اس لڑکی کے متعلق کیا حکم ہے؟ تاکہ اس کا نکاح ثانی کیا جائے۔
(نوٹ): …نکاح آج سے 5 سال پہلے ہوا اور طلاق دی ہوئی مدت کا عرصہ بھی 4 سال ہوچکا ہے۔ یعنی نکاح ایک سال رہا۔ نیز حق مہر یا کوئی دوسری چیز خاوند کے ذمہ ہے یا نہیں؟
صورتِ مسئولہ میں طلاق واقع ہوچکی ہے اور اس خاص صورت میں عدت بھی کوئی نہیں۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: {یٰٓأَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا نَکَحْتُمُ الْمُؤْمِنٰتِ ثُمَّ طَلَّقْتُمُوْھُنَّ مِنْ قَبْلِ أَنْ تَمَسُّوھُنَّ فَمَا لَکُمْ عَلَیْھِنَّ مِنْ عِدَّۃٍ تَعْتَدُّوْنَھَا ط} [الأحزاب:۴۹] [ ’’ اے مومنو1 جب تم مومن عورتوں سے نکاح کرو ، پھر ہاتھ لگانے سے پہلے طلاق دے دو ، تو ان پر تمہارا کوئی حق عدت کا نہیں، جسے تم شمار کرو، پس تم کچھ نہ کچھ انہیں دے دو اور بھلے طریق پر انہیں رخصت کردو۔‘‘ ] لہٰذا اب لڑکی کا نکاح پہلے خاوند سے یا کسی اور سے شریعت کی حدود و قیود کی پابندی کی صورت میں درست ہے۔ واللہ اعلم۔
صورتِ مذکورہ بالا میں نصف مہر مسمی خاوند کے ذمہ ہے ، اگر ادا کرچکا ہو تو فبہا ورنہ ادا کرے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: {وَإِنْ طَلَّقْتُمُوْھُنَّ مِنْ قَبْلِ أَنْ تَمَسُّوْھُنَّ وَقَدْ فَرَضْتُمْ لَھُنَّ فَرِیْضَۃً فَنِصْفُ مَا فَرَضْتُمْ إِلاَّ أَنْ یَّعْفُوْنَ ط} [البقرۃ:۲۳۷] [ ’’ اور اگر تم عورتوں کو اس سے پہلے طلاق دے دو کہ تم نے انہیں ہاتھ لگایا ہو اور تم نے ان کا مہر بھی مقرر کردیا ہو تو مقررہ مہر کا آدھا مہر دے دو۔ یہ اور بات ہے کہ وہ خود معاف کردیں یا وہ شخص معاف کردے، جس کے ہاتھ میں نکاح کی گرہ ہے۔‘‘] ہاں عورت یہ نصف مہر معاف بھی کرسکتی ہے۔ ۱۰ ؍ ۱۱ ؍ ۱۴۲۰ھ