ایک شخص نے اپنی بیوی کو ایک ایک ماہ کے وقفے سے تین طلاقیں دیں بعد میں اسے پتہ چلا کہ طلاق اوّل چونکہ ایام حیض میں دی گئی تھی۔ واقع نہیں ہوئی اور وہ رجوع کا حق مع طلاق ثالث بجا طور پر رکھتا ہے؟ اور اس رجوع میں نکاح جدید کی ضرورت ہے یا نہیں؟ تیسری طلاق 5/1/2002 کو دی تھی۔
صحیح بخاری ؍ کتاب الطلاق ؍ باب اذَا طُلِّقَتِ الحَائِضُ تُعْتَدُّ بِذٰلِکَ الطَّلاَقِ میں ہے : عبداللہ بن عمر رضی الله عنہ نے اپنی بیوی کو حالتِ حیض میں طلاق دے دی۔ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے اس بات کو رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم سے بیان کیا تو رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: (( لِیُرَاجِعْھَا قُلْتُ: اَتُحْتَسَبُ۔ قَالَ: فَمَہ۔ )) ایک روایت میں ہے: (( قَالَ: أَرَأَیْتَ إِنْ عَجَزَ وَاسْتَحْمَقَ )) [اسے رجوع کرنا چاہیے۔ (انس نے بیان کیا کہ) میں نے ابن عمرؓ سے پوچھا کہ کیا یہ طلاق ؍طلاق سمجھی جائے گی؟ انہوں نے کہا کہ چپ رہ کیا سمجھی جائے گی اور ایک روایت میں ہے کہ ابن عمرؓ نے کہا تو کیا سمجھتا ہے اگر کوئی کسی فرض کے ادا کرنے سے عاجز بن جائے یا احمق ہوجائے۔] اسی باب میں ہے عبداللہ بن عمر رضی الله عنہ فرماتے ہیں: (( حُسِبَتْ عَلَيَّ بِتَطْلِیْقَۃٍ )) [یہ طلاق جو میں نے حیض میں دی تھی مجھ پر شمار کی گئی۔] رہی روایت : ’’ وَلَمْ یَرَھَا شَیْئًا ‘‘تو بتقدیر صحت اس کا معنی ہوگا: (( وَلَمْ یَرَھَا شَیْئًا یَمْنَعُ الطَّلاَقَ )) تاکہ دونوں روایتوں میں تطبیق ہوجائے تو پہلی طلاق در حیض بھی واقع ہوچکی ہے۔
توصورتِ مسئولہ میں تینوں طلاقیں واقع ہوچکی ہیں۔اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: {اَلطَّـلَاقُ مَرَّتٰنِ فَإِمْسَاکٌ بِمَعْرُوْفٍ أَوْ تَسْرِیْحٌ بِإِحْسَانٍ} الآیۃ۔ نیز اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: {فَإِنْ طَلَّقَھَا فَـلَا تَحِلُّ لَہٗ مِنْ بَعْدُ حَتّٰی تَنْکِحَ زَوْجًا غَیْرَہٗ فَإِنْ طَلَّقَھَا فَـلَا جُنَاحَ عَلَیْھِمَا أَنْ یَّتَرَاجَعَآ إِنْ ظَنَّا أَنْ یُّقِیْمَا حُدُوْدَ اللّٰہِ} الآیۃ۔
اَلطَّـلَاقُ مَرَّتَانِاور فَإِنْ طَلَّقَھَا فَـلَا تَحِلُّ دونوں آیتیں عام اور مطلق ہیں۔ درمیان میں رجوع اور عدم رجوع والی دونوں صورتوں کو متناول و شامل ہیں۔ ان آیتوں کو پہلی صورت کے ساتھ خاص کرنے والی کوئی صحیح دلیل اس فقیر إلی اللہ الغنی کی نظر سے نہیں گزری۔ واللہ اعلم۔ ۱۸ ؍ ۶ ؍ ۱۴۲۳ھ