سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(558) ایک بچہ کی مدت رضاعت کے اندر دوسرا بچہ پیدا ہوا تو..الخ

  • 4926
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-26
  • مشاہدات : 1654

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایک بچہ کی مدت رضاعت کے اندر دوسرا بچہ پیدا ہوا تو دوسرے حمل کے دوران یا نفاس کے دوران یا پھر دوسرے بچے کی پیدائش کے بعد پہلا بچہ ماں کا دودھ پی سکتا ہے؟

          {وَحَمْلُہٗ وَفِصٰلُہٗ ثَلٰثُوْنَ شَھْرًا} [الأحقاف:۱۵] [ ’’ اس کے حمل کا اور اس کے دودھ چھڑانے کا زمانہ تیس ماہ کا ہے۔ ‘‘ ] سے یہ نکالنا کہ دو سال تک (پیدائش کے بعد) عورت برتھ کنٹرول (دوسرے بچہ کی پیدائش کو روکنے والی) گولیاں استعمال کرسکتی ہے ؟ کہاں تک صحیح ہے؟ (عبداللہ بن ناصر ، پتوکی)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

:… 1 مدت رضاعت بچے کی عمر دو سال کے اندر اندر پی سکتا ہے ، کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: {وَالْوَالِدَاتُ یُرْضِعُنَ اَوْلَادَھُنَّ حَوْلَیْنِ کَامِلَیْنِ لِمَنْ أَرَادَ أَنْ یُّتِمَّ الرَّضَاعَۃ ط} [البقرۃ:۲۲۳] [’’ مائیں اپنی اولاد کو دو سال کامل دودھ پلائیں۔ ‘‘ ]

 2       صحیح ہے ہی نہیں۔ لہٰذا کہاں تک صحیح والا سوال بنتا ہی نہیں۔ پھر دیکھئے: {لِمَنْ أَرَادَ أَنْ یُّتِمَّ الرَّضَاعَۃَ ط} [ ’’ جن کا ارادہ دودھ پلانے کی مدت پوری کرنے کا ہو۔‘‘ ] سے یہ بات نکلتی ہے جو اتمام رضاعت کا ارادہ نہیں رکھتا ، اسے حق حاصل ہے کہ دو سال سے پہلے ہی دودھ چھڑادے چنانچہ دوسرے فرمان میں ہے: {فَإِنْ أَرَادَ فِصَالًا عَنْ تَرَاضٍ مِّنْھُمَا وَتَشَاوُرٍ فَـلَا جُنَاحَ عَلَیْھِمَا ط} [ ’’ پھر اگر دونوں اپنی رضا مندی اور باہمی مشورہ سے دودھ چھڑانا چاہیں تو دونوں پر کچھ گناہ نہیں۔ ‘‘ ] بلکہ بچہ جننے والی ماں کا دودھ ایک دن بھی نہ پیے دوسرا دودھ پی لے تو شرعاً درست ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: {وَإِنْ أَرَدْتُّمْ أَنْ تَسْتَرْضِعُوْآ أَوْلَادَکُمْ فَـلَا جُنَاحَ عَلَیْکُمْ إِذَا سَلَّمْتُمْ مَّآ اٰتَیْتُمْ بِالْمَعْرُوْف ط} [البقرۃ:۲۳۳] [ ’’ اور اگر تمہارا ارادہ اپنی اولاد کو دودھ پلوانے کا ہو تو بھی تم پر کوئی گناہ نہیں، جبکہ تم ان کو مطابق دستور کے جو دینا ہو وہ ان کے حوالے کردو۔‘‘ ] ان احکام کی روشنی میں’’ ثَلٰثُوْنَ شَھْرًا ‘‘ والی آیت کریمہ پر غور فرمائیں ، تو یہ گولیوں والا استدلال گولی زدہ ہوجائے گا۔ ان شاء اللہ تبارک وتعالیٰ۔                  ۲۸ ؍ ۱ ؍ ۱۴۲۲ھ


قرآن وحدیث کی روشنی میں احکام ومسائل

جلد 02 ص 473

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ