سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(556) زبردستی ایک لڑکی کو کچھ لوگ غواء کرلیتے ہیں..الخ

  • 4924
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-25
  • مشاہدات : 1448

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

یہ بات ذہن میں ہونی چاہیے کہ اسلامی حکومت نہیں ہے۔

زبردستی ایک لڑکی کو کچھ لوگ اٹھاکر لے جاتے ہیں ، اغواء کرلیتے ہیں اور کچھ روز زیادتی کے بعد اس کو کسی بازار کے اندر چھوڑ جاتے ہیں۔ کچھ عرصے کے بعد پتہ چلتا ہے ، لڑکی حاملہ ہے ، تو کیا لڑکی کا حمل ضائع کردیا جائے؟ اگر نہیں تو اس بچہ کی کفالت کس کے ذمہ ہے؟ کیا معاشرہ اور اس کے رہنے والے لوگ چاہے وہ اسلامی ذہن رکھتے ہوں اس کو قبول کریں گے (شادی کے لیے)؟

کیا اس کو معاشرہ کے اندر کوئی عزت دے گا؟ کیا اس کی زندگی اس کی دوسری بہنوں کے لیے پریشانی کا باعث نہ ہوگی؟ کیا اس کے والدین ، بہن ، بھائیوں کو معاشرے کے اندر عزت کی نگاہ سے دیکھا جائے گا؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

مشکاۃ ؍ کتاب الحدود ، حدیث نمبر: ۳۵۶۲ میں ہے:  (( ثم جائتہ امرأۃ من غامد من الأزد ، فقالت: یا رسول اللّٰہ طھرنی۔ فقال: ویحک ارجعی ، فاستغفری اللّٰہ ، وتوبی إلیہ۔ فقالت: ترید أن ترددنی کما رددت ماعز بن مالک؟ إنھا حبلی من الزنا۔ فقال: أنت؟ قالت: نعم۔ قال لھا: حتی تضعی مافی بطنک۔ قال: فکفلھا رجل من الأنصار حتی وضعت ، فأتی النبی  صلی الله علیہ وسلم، فقال: قد وضعت الغامدیۃ۔ فقال: إذا لا نرجمھا ، وندع ولدھا صغیرا لیس لہ من یرضعہ۔)) الحدیث۔ کتاب نکال کر یہ صحیح مسلم والی پوری حدیث پڑھ لیں۔1 [’’ بریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے۔ ماعز بن مالک  رضی اللہ عنہ رسول اللہ  صلی الله علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہنے لگا یا رسول اللہ  صلی الله علیہ وسلم پاک کیجئے مجھ کو۔ آپ  صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ارے چل اللہ تعالیٰ سے بخشش مانگ اور توبہ کر۔ تھوڑی دور لوٹ کر گیا۔ پھر آیا اور کہنے لگا: یا رسول اللہ  صلی الله علیہ وسلم پاک کیجئے مجھ کو۔ آپ نے ایسا ہی فرمایا۔ جب چوتھی مرتبہ ہوا تو آپؐ نے فرمایا: میں کاہے سے پاک کروں تجھ کو، ماعز رضی اللہ عنہ نے کہا: زنا سے۔ جناب رسول اللہ  صلی الله علیہ وسلم نے (لوگوں سے) پوچھا کیا اس کو جنون ہے؟ معلوم ہوا جنون نہیں ہے ۔ پھر فرمایا: کیا اس نے شراب پی ہے۔ ایک شخص کھڑا ہوا۔ اور اس کا منہ سونگھا تو شراب کی بو نہیں پائی۔ پھر آپ نے فرمایا: (ماعز رضی اللہ عنہ سے) کیا تو نے زنا کیا؟ وہ بولا: ہاں! آپ نے حکم کیا وہ پتھروں سے مارا گیا۔ اب اس کے باب میں لوگ دو فریق ہوگئے۔ ایک تویہ کہتا ماعز  رضی اللہ عنہ تباہ ہوا گناہ نے اس کو گھیر لیا۔ دوسرا یہ کہتا کہ ماعز  رضی اللہ عنہ کی توبہ سے بہتر کوئی توبہ نہیں۔ وہ جناب رسول اللہ  صلی الله علیہ وسلم کے پاس آیا اور اپنا ہاتھ آپ کے ہاتھ میںرکھ دیا اور کہنے

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

1        مسلم ؍ کتاب الحدود ؍ باب حد الزنا

          لگا: مجھ کو پتھروں سے مار ڈالیئے۔ دو تین دن تک لوگ یہی کہتے رہے بعد اس کے جنابِ رسول اللہ  صلی الله علیہ وسلم تشریف لائے۔ اور صحابہؓ بیٹھے تھے آپؐ نے سلام کیا۔ پھر بیٹھے فرمایا: دعا مانگو ماعز رضی اللہ عنہ کے لیے۔ صحابہؓ نے کہا: اللہ بخشے ماعز بن مالک کو۔ جناب رسول اللہ  صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ماعزؓ نے ایسی توبہ کی ہے کہ اگر وہ توبہ ایک امت کے لوگوں میں بانٹی جائے تو سب کو کافی ہوجائے۔ بعد اس کے پاس ایک عورت آئی غامد کی (جو ایک شاخ ہے) ازد کی (ازد ایک قبیلہ ہے۔) اور کہنے لگی: یا رسول اللہ  صلی الله علیہ وسلم 1 پاک کردیجئے مجھ کو۔ آپؐ نے فرمایا: اری چل اور دعا مانگ ، اللہ سے بخشش کی اور توبہ کر اس کی درگاہ میں ۔ عورت نے کہا: آپؐ مجھ کو لوٹانا چاہتے ہیں۔ جیسے ماعز  رضی اللہ عنہ کو لوٹایا تھا۔ آپؐ نے فرمایا: تجھے کیا ہوا؟ وہ بولی میں پیٹ سے ہوں زنا سے۔ آپؐ نے فرمایا: تو خود؟ اس نے کہا: ہاں۔ آپؐ نے فرمایا: اچھا ٹھہر۔ جب تک تو جنے (کیونکہ حاملہ کا رجم نہیں ہوسکتا اور اس پر اجماع ہے۔ اسی طرح کوڑے لگانے ، یہاں تک کہ وہ جنے) پھر ایک انصاریؓ شخص نے اس کی خبر گیری اپنے ذمہ لی۔ جب وہ جنی تو انصاری  رضی اللہ عنہ جنابِ رسول اللہ  صلی الله علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہنے لگا: غامدیہ جن چکی ہے۔ آپؐ نے فرمایا: ابھی تو ہم اس کو رجم نہیں کریں گے۔ اور اس کے بچے کو بے دودھ کے نہ چھوڑیں گے۔ ایک شخص انصاری  رضی اللہ عنہ بولا۔ یا رسول اللہ  صلی الله علیہ وسلم1 میں بچے کو دودھ پلوالوں گا۔ تب آپؐ نے اس کو رجم کیا۔ ‘‘] اس میں آپ کے تمام سوالوں کا جواب موجود ہے۔

رہی آپ کی بات ’’ یہ بات ذہن میں ہونی چاہیے کہ اسلامی حکومت نہیں۔‘‘ تو جناب آپ بھی یہ بات ذہن میں رکھیں کہ کئی چیزیں ایسی ہوتی ہیں جن پر عمل کرنا اسلامی حکومت میں انسان کے بس میں نہیں ہوتا اور غیر اسلامی حکومت میں ان پر عمل کرنا انسان کے بس میں ہوتا ہے۔ پھر غیر اسلامی معاشرہ اسلامی معاشرہ سے کوئی زیادہ عزت و آبرو والا نہیں ہوتا۔ واللہ اعلم۔                              ۳۰ ؍ ۱ ؍ ۱۴۲۴ھ


قرآن وحدیث کی روشنی میں احکام ومسائل

جلد 02 ص 471

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ