ایک کنواری لڑکی کے ہاں نکاح کے چار پانچ ماہ بعد ناجائز بچہ پیدا ہوا ہے، نکاح کے وقت وہ حاملہ تھی ، لیکن اس حمل کا علم اس کے والدین کو اور نہ ہی لڑکے کے والدین کو اور نہ ہی نکاح خواں کو تھا۔ اب وضع حمل کے بعد اس لڑکی کے اقرباء میں سے کوئی قتل کرسکتا ہے یا نہیں؟ دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ نکاح جو حمل کی حالت میں ہوا وہ نکاح باقی ہے یا ختم ہوگیا؟
صورتِ مسئولہ میں لڑکی کی سزا سو کوڑے اور سال بھر کے لیے علاقہ بدر کرنا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: {اَلزَّانِیَۃُ وَالزَّانِیْ فَاجْلِدُوْا کُلَّ وَاحِدٍ مِّنْھُمَا مِائَۃَ جَلْدَۃٍ ط} [النُّور:۲] [ ’’ زنا کار عورت و مرد میں سے ہر ایک کو سو کوڑے لگاؤ۔ ‘‘ ] صحیح مسلم میں ہے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: (( اَلْبِکْرُ بِالْبِکْرِ جَلْدُ مِائَۃٍ وَنَفْیُ سَنَۃٍ وَالثَّیِّبُ بِالثَّیِّبِ جَلْدُ مِائَۃٍ وَالرَّجْمُ )) 1 [’’ غیر شادی شدہ جب زنا کرے غیر شادی شدہ سے تو سو کوڑے لگاؤ اور ایک سال کے لیے ملک سے باہر کردو۔ اور شادی شدہ جب شادی شدہ سے زنا کرے تو سو کوڑے لگاؤ اور پھر پتھروں سے مار ڈالو۔‘‘ ] ایسی لڑکی کی سزا قتل نہیں۔
رہا یہ نکاح تو وہ نہیں ہے ، کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: {وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ الْمُؤْمِنَاتِ ط} [المائدۃ:۵][ ’’ اور پاک دامن مسلمان عورتیں حلال ہیں۔‘‘ ] تو پتہ چلا کہ غیر محصنہ خواہ مؤمنہ ہی ہو حلال نہیں حرام ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: {وَحُرِّمَ ذٰلِکَ عَلَی الْمُؤْمِننِیْنَ ط} [النور:۳] [ ’’ اور ایمان والوں پر یہ حرام کر دیا گیا۔ ‘‘ ] ۱۳ ؍ ۷ ؍ ۱۴۲۱ھ
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 مسلم ؍ کتاب الحدود ؍ باب حد الزنا