سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(542) کسی لڑکی کا نکاح قبل البلوغ ہوا ہو..الخ

  • 4910
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-26
  • مشاہدات : 1550

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کسی لڑکی کا نکاح قبل البلوغ ہوا ہو۔ کیا بعد از بلوغ اسے فسخ نکاح کا اختیار ہے۔ اس مسئلہ میں آپ سے فتویٰ مطلوب ہے۔ اگر ایسی لڑکی نکاح قائم رکھنا نہیں چاہتی تو کیا اسے کم از کم خلع کا حق ہے؟

                                          (السید نصرۃ اللہ شاہ الراشدی السندھ، نیو سعید آباد سندھ)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

خیار بلوغ شرعاً ثابت ہے۔ عبداللہ بن عباس…رضی اللہ عنہما… فرماتے ہیں: (( عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ جَارِیَۃً بِکْرًا أَتَتِ النَّبِيَّ  صلی الله علیہ وسلم فَذَکَرَتْ لَہٗ أَنَّ أَبَاھَا زَوَّجَھَا وَھِيَ کَارِھَۃٌ ، فَخَیَّرَھَا النَّبِيُّ  صلی الله علیہ وسلم ))1 [’’ ایک کنواری لڑکی نبیؐ کے پاس آئی اور اس نے بتایا کہ اس کے باپ نے اس کا نکاح کردیا ہے اور وہ ناپسند کرنے والی ہے تو اس کو رسول اللہ  صلی الله علیہ وسلم نے اختیار دے دیا۔‘‘] اس حدیث کو شیخ البانی … رحمہ اللہ تعالیٰ … نے صحیح ابن ماجہ میں درج فرمایا ہے۔

          البتہ ایسی لڑکی خود بخود نکاح ختم نہیں کرسکتی۔ قاضی صاحب کے پاس مسئلہ پیش کرے اور اپنی ناپسندیدگی کا اظہار کرے۔ قاضی صاحب اس کو اختیار دیں گے ، اگر وہ خاوند کے پاس نہیں رہنا چاہتی تو قاضی صاحب نکاح ختم و فسخ کردیں گے۔ فسخ نکاح کی عدت گزار کر آگے نکاح کرسکتی ہے۔       ۲۰ ؍ ۴ ؍ ۱۴۲۴ھ

1        رواہ أحمد ، وأبو داؤد وابن ماجہ ، رواہ ابو داؤد للألبانی الجزء الثانی حدیث نمبر:۱۸۴۵

قرآن وحدیث کی روشنی میں احکام ومسائل

جلد 02 ص 466

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ