ایک والد حقیقی نے اپنی بالغ اور جوان لڑکی کا نکاح اس کی اجازت ، رضا اور خوشی حاصل کیے بغیر اپنے کسی رشتہ دار لڑکے سے کردیا ہے۔ لڑکی مذکورہ نکاح سے پہلے بھی برملا پکار کر کہتی رہی ہے کہ میں اس لڑکے کے ساتھ شادی کرنے پر ہرگز راضی اور خوش نہیں ہوں۔ ابھی تک رخصتی نہیں ہوئی اور لڑکی مذکورہ اب بھی علی الاعلان اس نکاح پر ناراضگی ، خفگی اور عدم رضا کا اظہار کرتے ہوئے اپنے رشتہ دار مردوں اور عورتوں کے سامنے رونا شروع کردیتی ہے اور واضح الفاظ میں اس نکاح کو ناپسند اور ردّ کرتی ہے۔ اس نکاح کا قرآن و حدیث کے اعتبار سے کیا حکم ہے؟
صورتِ مسئولہ اگر درست ہے تو معاملہ مندرجہ ذیل حدیث کی روشنی میں طے کرلیا جائے۔
(( عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ جَارِیَۃً بِکْرًا أَتَتِ النَّبِيَّ صلی الله علیہ وسلم فَذَکَرَتْ لَہٗ أَنَّ أَبَاھَا زَوَّجَھَا وَھِيَ کَارِھَۃٌ ، فَخَیَّرَھَا النَّبِيُّ صلی الله علیہ وسلم ))1
’’ ابن عباس رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ ایک کنواری لڑکی نبی صلی الله علیہ وسلم کے پاس آئی اور اس نے کہا کہ اس کے باپ نے اس کا نکاح کیا ہے اور وہ پسند نہیں کرتی تو نبی صلی الله علیہ وسلمنے اسے اختیار دے دیا۔‘‘ ۲۰ ؍ ۸ ؍ ۱۴۲۲ھ
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 صحیح سنن ابن ماجہ:۱۵۲۰ ــ ۱۸۷۵