سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(536) ایک والد ہے اس نے برادری کے اکٹھ میں یہ کہا کہ..الخ

  • 4904
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-20
  • مشاہدات : 899

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایک والد ہے اس نے برادری کے اکٹھ میں یہ کہا کہ میں نے اپنی بیٹی کا رشتہ فلاں شخص کو دے دیا ہے۔ اب یہ بیٹی اور اس کا ہونے والا خاوند دونوں اپنے اس نکاح پر راضی ہوں، لیکن وہ باپ کسی وجہ سے لڑکے والوں سے ناراض ہوجاتا ہے اور کہتا ہے میں نے رشتہ نہیں دینا۔ اب لڑکی اس لڑکے کے پاس آجاتی ہے اور وہ کورٹ میں جاکر نکاح کرلیتے ہیں۔                 (قاری عبدالصمد بلوچ)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

نکاح کے صحیح و درست ہونے کے لیے ولی اور لڑکی دونوں کا راضی ہونا اور اجازت دینا بھی ضروری ہے، ولی راضی ہوکر اجازت نہیں دیتا یا لڑکی راضی ہوکر اجازت نہیں دیتی یا دونوں ہی راضی ہوکر اجازت نہیں دیتے ان تینوں صورتوں میں نکاح صحیح و درست نہیں۔ ولی اور لڑکی کی رضا و اجازت والی احادیث کسی بھی حدیث کی کتاب کی کتاب النکاح میں دیکھ سکتے ہیں۔ واللہ اعلم۔

[’’ حضرت عائشہ  رضی اللہ عنہما نے خبردی کہ زمانہ جاہلیت میں نکاح چار طرح ہوتے تھے۔ ایک صورت تو یہی تھی جیسے آج کل لوگ کرتے ہیں۔ ایک شخص دوسرے شخص کے پاس اس کی زیر پرورش لڑکی یا اس کی بیٹی کے نکاح کا پیغام بھیجتا اور اس کا مہر دے کر اس سے نکاح کرتا۔ دوسرا نکاح یہ تھا کہ کوئی اپنی بیوی سے جب وہ حیض سے پاک ہوجاتی تو کہتا تو فلاں شخص کے پاس چلی جا اور اس سے منہ کالا کرالے۔ اس مدت میں شوہر اس سے جدا رہتا اور اس کو چھوتا بھی نہیں۔ پھر جب اس غیر مرد سے اس کا حمل ظاہر ہوجاتا۔ جس سے وہ عارضی طور پر صحبت کرتی رہتی تو حمل کے ظاہر ہونے کے بعد اس کا شوہر اگر چاہتا تو اس سے صحبت کرتا۔ ایسا اس لیے کرتے تھے، تاکہ ان کا لڑکا شریف اور عمدہ پیدا ہو یہ نکاح استبضاع’’ نکاح ‘‘ کہلاتا تھا۔ تیسری قسم نکاح کی یہ تھی کہ چند آدمی جو تعداد میں دس سے کم ہوتے کسی ایک عورت کے پاس آنا جانا رکھتے اور اس سے صحبت کرتے۔ پھر جب وہ عورت حاملہ ہوتی اور بچہ جنتی تو وضع

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

1        بخاری ؍ کتاب النکاح ؍ باب من قال لا نکاح الا بولی

حمل پر چند دن گزرنے کے بعد وہ عورت اپنے ان تمام مردوں کو بلاتی۔ اس موقع پر ان میں سے کوئی شخص انکار نہیں کرسکتا تھا۔ چنانچہ وہ سب اس عورت کے پاس جمع ہوجاتے اور وہ ان سے کہتی کہ جو تمہارا معاملہ تھا وہ تمہیں معلوم ہے اور اب میں نے یہ بچہ جنا ہے۔ پھر وہ کہتی کہ اے فلاں1 یہ بچہ تمہارا ہے۔ وہ جس کا چاہتی نام لے دیتی اور اس کا وہ لڑکا اسی کا سمجھا جاتا وہ شخص اس سے انکار کی جرأت نہیں کرسکتا تھا۔ چوتھا نکاح اس طور پر تھا کہ بہت سے لوگ کسی عورت کے پاس آیا جایا کرتے تھے۔ عورت اپنے پاس کسی بھی آنے والے کو روکتی نہیں تھی۔ یہ کسبیاں ہوتی تھیں۔ اس طرح کی عورتیں اپنے دروازوں پر جھنڈے لگائے رہتی تھیں، جو نشانی سمجھے جاتے تھے۔ جو بھی چاہتا ان کے پاس جاتا اس طرح کی عورت جب حاملہ ہوتی اور بچہ جنتی تو اس کے پاس آنے جانے والے جمع ہوجاتے اور کسی قیافہ جاننے والے کو بلاتے اور بچہ کا ناک نقشہ جس سے ملتا جلتا ہوتا اس عورت کے اس بچے  کو اسی کے ساتھ منسوب کردیتے اور وہ بچہ اس کا بیٹا کہا جاتا۔ اس سے کوئی انکار نہیں کرتا تھا۔ پھر جب حضرت محمدؐ حق کے ساتھ رسول ہوکر تشریف لائے تو آپؐ نے جاہلیت کے تمام نکاحوں کو باطل قرار دے دیا۔ صرف اس نکاح کو باقی رکھا۔ جس کا آج کل رواج ہے۔ ‘‘ 1

’’ خنساء بنت خذام انصاریہ  رضی اللہ عنہما نے کہا کہ ان کے والد نے ان کا نکاح کردیا تھا۔ وہ ثیبہ تھیں، انہیں یہ نکاح منظور نہیں تھا۔ اس لیے رسول اللہ  صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں۔ آنحضرت  صلی الله علیہ وسلم نے اس نکاح کو فسخ کر ڈالا۔ ‘‘ ]2                                                       ۲ ؍ ۲ ؍ ۱۴۲۴ھ

1        بخاری ؍ کتاب النکاح ؍ باب من قال: لا نکاح الاَّ بولی

2        بخاری ؍ کتاب النکاح ؍ باب اذا زوّج ابنتہ وھی کارھہ فنکاحہ مردود

 

قرآن وحدیث کی روشنی میں احکام ومسائل

جلد 02 ص 463

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ