سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(535) ایک آدمی کی بیوی اپنے خاوند سے جھگڑ کر اپنے دو بچوں..الخ

  • 4903
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-26
  • مشاہدات : 1194

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایک آدمی کی بیوی اپنے خاوند سے جھگڑ کر اپنے دو بچوں (لڑکا اور لڑکی(بالغہ) کو لے کر اپنے والدین کے پاس چلی گئی۔ کچھ عرصہ بعد اپنے خاوند کی اجازت اور رضا مندی کے بغیر لڑکی کا نکاح کردیا۔ جبکہ لڑکی کا باپ نکاح مذکورہ کے خلاف تاحال سراپا احتجاج ہے۔ اندریں حالات کیا لڑکی مذکورہ کا نکاح شرعی طریقے پر ہوگیا ہے یا نہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

لڑکی کا نکاح ولی کی اجازت کے بغیر نہیں ہوتا۔ صحیح بخاری میں ہے:  (( فَلَمَّا بُعِثَ مُحَمَّدٌ  صلی الله علیہ وسلم بِالْحَقِّ ھَدَمَ نِکَاحَ الْجَاھِلِیَّۃِ کُلَّہٗ إِلاَّ نِکَاحَ النَّاسِ الْیَوْمَ )) (۲؍۷۷۰)

[ عائشہ   رضی اللہ عنہما نے خبر دی کہ زمانہ جاہلیت میں نکاح چار طرح ہوتے تھے، ایک صورت تو یہی تھی جیسے آج کل لوگ کرتے ہیں کہ ایک شخص دوسرے شخص کے پاس اس کی زیر پرورش لڑکی یا اس کی بیٹی کے نکاح کا پیغام بھیجتا اور اس کا مہر دے کر اس سے نکاح کرتا۔ دوسرا نکاح یہ تھا کہ کوئی شوہر اپنی بیوی سے جب وہ حیض سے پاک ہوجاتی تو کہتا تو فلاں شخص کے پاس چلی جا اور اس سے منہ کالا کرالے۔ اس مدت میں شوہر اس سے جدا رہتا اور اسے چھوتا بھی نہیں۔ پھر جب اس غیر مرد سے اس کا حمل ظاہر ہوجاتا ، جس سے وہ عارضی طور پر صحبت کرتی رہتی تو حمل کے ظاہر ہونے کے بعد اس کا شوہر اگر چاہتا تو اس سے صحبت کرتا۔ ایسا اس لیے کرتے تھے ، تاکہ ان کا لڑکا شریف اور عمدہ پیدا ہو یہ نکاح۔ نکاح استبضاع کہلاتا تھا۔

تیسری قسم نکاح کی یہ تھی کہ چند آدمی جو تعداد میں دس سے کم ہوتے کسی ایک عورت کے پاس آنا جانا رکھتے اور اس سے صحبت کرتے ، پھر جب وہ عورت حاملہ ہوتی اور بچہ جنتی تو وضع حمل پر چند دن گزرنے کے بعد وہ عورت اپنے ان تمام مردوں کو بلاتی، اس موقع پر ان میں سے کوئی شخص انکار نہیں کرسکتا تھا۔ چنانچہ وہ سب اس عورت کے پاس جمع ہوجاتے اور وہ ان سے کہتی کہ جو تمہارا معاملہ تھا وہ تمہیں معلوم ہے اور اب میں نے یہ بچہ جنا ہے ، پھر وہ کہتی کہ اے فلاں1 یہ بچہ تمہارا ہے۔ وہ جس کا چاہتی نام لے دیتی اور اس کا وہ لڑکا اسی کا سمجھا جاتا۔ وہ شخص اس سے انکار کی جرأت نہیں کرسکتا تھا۔

چوتھا نکاح اس طور پر تھا کہ بہت سے لوگ کسی عورت کے پاس آیا جایا کرتے تھے۔ عورت اپنے پاس کسی بھی آنے والے کو روکتی نہیں تھی یہ کسبیاں ہوتی تھیں اس طرح کی عورتیں اپنے دروازوں پر جھنڈے لگائے رہتی تھیں جو نشانی سمجھے جاتے تھے جو بھی چاہتا ان کے پاس جاتا۔ اس طرح کی عورت جب حاملہ ہوتی اور بچہ جنتی تو اس کے پاس آنے جانے والے جمع ہوتے اور کسی قیافہ جاننے والے کو بلاتے اور بچہ کا ناک نقشہ جس سے ملتا جلتا ہوتا اس عورت کے اس لڑکے کو اسی کے ساتھ  منسوب کردیتے اور وہ بچہ اسی کا بیٹا کہا جاتا۔ اس سے انکار نہیں کرتا تھا۔ پھر جب محمد صلی الله علیہ وسلم حق کے ساتھ رسول ہو کر تشریف لائے تو آپ نے جاہلیت کے تمام نکاحوں کو باطل قرار دے دیا۔ صرف اس نکاح کو باقی رکھا ، جس کا آج کل رواج ہے۔]                                   ۷ ؍ ۲ ؍ ۱۴۲۳ھ

 

قرآن وحدیث کی روشنی میں احکام ومسائل

جلد 02 ص 462

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ