السلام عليكم ورحمة الله وبركاته کیا عورت محرم کے بغیر سفر کر سکتی ہے۔؟اور اگر کر سکتی ہے تو کتنا ۔؟ دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ کیا عورت محرم بن سکتی، جس طرح کہ کوئی عورت اپنی والدہ کے ساتھ سفر پر جائے۔؟ الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤالوعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته! الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد! عورت محرم کے بغیر سفر نہیں کر سکتی ہے لیکن اب سفر کی تعریف میں اختلاف ہے کہ سفر کسے کہیں گے۔ جمہور اہل علم کے نزدیک سفر کم از کم ۴۸ میل یعنی ۸۰ کلومیٹر بنتا ہے جبکہ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے نزدیک جسے عرف میں سفر کہیں گے وہ سفر ہو گا اور جو اپنے وقت کے عرف میں سفر نہ کہلاتا ہو وہ سفر نہیں ہو گا۔ شیخ صالح المنجد اپنے ایک فتاوی میں لکھتے ہیں: شیخ ابن باز رحمہ اللہ تعالی نے سفر کے بارہ میں مجموع الفتاوی میں کہا ہے : جمہور اہل علم کے ہاں گاڑی میں تقریباً اسی کلومیٹر بنتا ہے ، اوراسی طرح ہوائی جہاز اورکشتیوں اوربحری جہازوں کی مسافت بنتی ہے۔ اسی 80 کلومیٹر یا اس کے قریب کی مسافت کو سفر کا نام دیا جاتا ہے اورعرف عام میں سفر شمار کیا جاتا ہے ، اور مسلمانوں میں بھی یہ سفر معروف ہے ، لہذا اگر کوئی انسان اونٹ پر یا پیدل یا گاڑی یا پھر ہوائی جہاز یا بحری جہاز اورکشتیوں اتنی یا اس سےزيادہ مسافت طے کرکے تواسے مسافر قرار دیا جائے گا ۔مجموع الفتاوی ( 12 / 267 ) شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ تعالی سے پوچھا گيا کہ : نماز قصر کی مسافت کیا ہے ، اورکیا بغیر قصر کے نماز جمع کی جاسکتی ہے۔ ؟ توشیخ رحمہ اللہ تعالی کا جواب تھا : بعض علماء کرام نے نماز قصر کرنے کے لیے تراسی ( 83 ) کلومیٹر کی مسافت مقرر کی ہے ، اوربعض کہتے ہیں کہ عرف عام میں جسے سفر کہا جائے اس میں نماز قصر ہوگی چاہے اس کی مسافت تراسی کلومیٹر نہ بھی ہو ، اورجسے لوگ سفر نہ کہيں وہ سفر نہیں چاہے وہ ایک سو کلو میٹر ہی کيوں نہ ہو ۔ یہی آخری قول شیخ الاسلام ابن تیمیۃ رحمہ اللہ تعالی نے اختیار کیا ہے ، کیونکہ اللہ تعالی نے بھی نماز قصر کے جواز میں مسافت کی تحدید نہيں کی اوراسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس کی کوئی معین مسافت محدود نہیں فرمائی ۔ اورانس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہيں کہ : رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب تین میل کی مسافت کے لیے یا پھر تین فرسخ کی مسافت کےلیے نکلتے تو نماز دو رکعت ادا کیا کرتے تھے ۔ ( مسلم : 691 ) شیخ الاسلام ابن تیمیۃ رحمہ اللہ تعالی کا قول اقرب الی الصواب معلوم ہوتا ہے ۔ دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ کیا عورت محرم بن سکتی ہے، جس طرح کے کوئی عورت اپنی والدہ کے ساتھ سفر پر جائے۔؟ شیخ صالح المنجد اس بارے ایک سوال کے جواب میں فرماتے ہیں: عورت کسی دوسری عورت کےلیے محرم نہيں ، بلکہ محرم تووہ مرد ہے جواس عورت پرنسب کی وجہ سے حرام ہو مثلا اس کا والد ، اس کا بھائی ، یا کسی مباح سبب کے حرام ہوتا ہو ، مثلا خاوند ، سسر ، خاوند کا بیٹا ، اوررضاعی باپ ، رضاعی بھائی وغیرہ ۔ اورکسی بھی مرد کےلیے کسی اجنبی عورت سے خلوت کرنا اور اس کے ساتھ سفر کرنا جائز نہیں ہے کیونکہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے : ’’ کوئی بھی عورت محرم کے بغیر سفر نہ کرے ‘‘ (متفق علیہ) اوراس لیے کہ بھی اللہ تعالی کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے : ’’ کوئی مرد بھی کسی عورت سے خلوت نہ کرے ، کیونکہ ان دونوں کے مابین تیسرا شیطان ہے ‘‘ مسند احمد وغیرہ نے اسے ابن عمررضي اللہ تعالی عنہ سے صحیح سند کےساتھ بیان کیا ہے ۔ اللہ سبحانہ وتعالی ہی توفیق بخشنے والا ہے ۔ (دیکھیں کتاب : مجموع فتاوی ومقالات متنوعۃ ، تالیف فضلیۃ الشیخ علامہ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز رحمہ اللہ تعالی) ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب
|
ماخذ:مستند کتب فتاویٰ