ایک آدمی برطانوی شہریت رکھنے والی لڑکی یا امریکی یا کسی اور ملک کی شہریت رکھنے والی لڑکی سے اس غرض سے شادی کرتا ہے کہ وہ اس طرح برطانیہ یا امریکہ یا کسی اور ملک چلا جائے گا، وہاں کی کرنسی بہتر ہے ، وہاں محنت کی مزدوری بہتر ہے، اس طرح اس کی غربت دور ہوجائے گی کیا ایسا نکاح درست ہے ہمارے ایک بزرگ کہتے ہیں کہ یہ نکاح نہیں بلکہ زنا ہے۔ آپ قرآن و سنت کی روشنی میں رہنمائی فرمائیں؟
(محمد امجد ولد محمد حنیف ، میر پور آزاد کشمیر)
اگر اس کاا بتداء ہی سے ارادہ ہے کہ کچھ مدت مثلا دو چار سال بعد اس کو چھوڑ دوں گا تا حیات نکاح میں رکھنے کا ارادہ نہیں تو یہ نکاح متعہ ہے اور معلوم ہے کہ نکاح متعہ حرام ہے۔ [ ’’ آپؐ نے فرمایا: اے لوگو1 میں نے تمہیں عورتوں سے متعہ کرنے کی اجازت دی، لیکن اب اللہ تعالیٰ نے قیامت کے دن تک اسے حرام کردیا ہے۔ لہٰذا اگر اس قسم کی کوئی عورت کسی کے پاس ہو تو وہ اسے چھوڑ دے اور جو کچھ تم نے انہیں دیا ہے وہ ان سے واپس نہ لو۔‘‘ ][وضاحت یاد رہے فتح مکہ سے پہلے تک نکاح متعہ جائز تھا ، جسے فتح مکہ کے موقع پر رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم نے حرام قرار دے دیا۔ بعض صحابہ کرامؓ جنہیں رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے اس حکم کا علم نہ ہوسکا ، وہ اسے جائز سمجھتے تھے، لیکن عمرؓ نے اپنے عہد خلافت میں جب سختی سے اس قانون پر عمل کروایا تو تمام صحابہ کرام کو اس کی حرمت کا علم ہوگیا اور اس کے بعد کسی نے اسے جائز نہیں سمجھا۔] اور اگر اس کا ارادۂ و پروگرام تا حیات نکاح میں رکھنے کاہے تو پھر یہ نکاح رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے فرمان: (( وَمَنْ کَانَتْ ھِجْرَتُہٗ إِلَی دُنْیَا یُصِیْبُھَا أَوْ إِلَی امْرَأَۃٍ یَنْکِحُھَا فَھِجْرَتُہٗ إِلَی مَا ھَاجَرَ إِلَیْہِ )) 1[’’ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: عمل کا دارومدار نیت پر ہے اور ہر شخص کو وہی ملتا ہے، جس کی وہ نیت کرے اس لیے جس کی ہجرت اللہ اور اس کے رسول صلی الله علیہ وسلم کی رضا حاصل کرنے کے لیے ہو ، اسے اللہ اور اس کے رسول صلی الله علیہ وسلم کی رضا حاصل ہوگی ، لیکن جس کی ہجرت دنیا حاصل کرنے کی نیت سے یا کسی عورت سے شادی کرنے کے ارادہ سے ہو ، اس کی ہجرت اسی کے لیے ہے جس کے لیے اس نے ہجرت کی۔‘‘] کا مصداق ہے۔
1 مسلم ؍ کتاب النکاح ؍ باب نکاح المتعۃ