سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

وراثت کا مسئلہ

  • 489
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-29
  • مشاہدات : 557

سوال

سوال: السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ، میرے ایک آفس کے ساتھی نے وراثت کے تعلق سے درج ذیل سوال پوچھا ہے۔ اس مسئلے کے جواب کی بنیاد پر عدالت میں کیس دائر کرنا ہے۔  ایک بیوہ عورت جس کی کوئی اولاد نہیں، اس کے خاوند کی موت کے وقت، خاوند کا کوئی سگا بھائی، بہن، یا م

جواب:
بسم الله والحمد لله والصلاة والسلام على رسول الله!
اگر میت کے ورثا میں صرف بیوی اور بھتیجے بھتیجیاں ہوں، تو بیوی اس کو کا مقررہ (فرضی) حصہ یعنی چوتھائی ملے گا اور باقی سارا مال بھتیجوں میں برابر تقسیم ہوگا۔ اور بھتیجیاں محروم ہوں گی۔
فرمانِ باری ہے:
﴿ وَلَهُنَّ الرُّ‌بُعُ مِمَّا تَرَ‌كْتُمْ إِن لَّمْ يَكُن لَّكُمْ وَلَدٌ ﴾ ... النساء: 12
کہ ’’اور ان (بیویوں) کیلئے چوتھائی حصہ ہے اس سے جو تم (اے مردو!) چھوڑ کر (فوت ہوجاؤ) اگر تمہاری اولاد نہ ہو۔‘‘
نبی کریمﷺ نے فرمایا:
« ألحقوا الفرائض بأهلها ، فما بقي فلأولى رجل ذكر » ... صحيح البخاري: 6737
کہ ’’فرضی (مقررہ) حصّے ان کے اہل (اصحاب الفرائض) کو دے دو، جو باقی مال بچ جائے وہ سب سے قریبی مذکر (وارث) کیلئے ہے۔‘‘
گویا ترکہ کے چار حصّے کر کے ایک ایک حصہ بیوی اور ہر بھتیجے کو ملے گا۔

واللہ اعلم!

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ