مکہ میں پہنچ کر پہلا عمرہ جو کہ میقات سے احرام باندھ کر کیا جاتا ہے اور پھر اس عمرہ کے ارکان سے فارغ ہوکر قیام کے دوران بار بار احرام باندھ کر عمرہ کرنا کیسا ہے؟ کیونکہ اس میں تذبذب ہے، کیونکہ علمائِ حجاز اس کو جائز نہیں کہتے اور مولانا فاروق صارم صاحب نے اس کو جائز حج رسول میں قرار دیا ہے۔ جس کی نظر ثانی آپ نے کی ہے۔ اس کی بھی تفصیل سے آگاہ کردینا اور عنداللہ ماجور ہونا؟ (محمد بشیر الطیب ، الکویت)
اس سلسلہ میں فاروق صارم صاحب … حفظہ اللہ تعالیٰ … کی ’’ حج رسول صلی الله علیہ وسلم‘‘ والی بات درست ہے۔ [ حضرت عبدالرحمن بن ابی بکر رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے انہیں حکم دیا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہما کو اپنے ساتھ سواری پر بیٹھا کر لے جائیں اور تنعیم سے (احرام باندھ کر) ان کو عمرہ کرائیں۔ 1
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے اہل مدینہ کے لیے ذوالحلیفہ، اہل شام کے لیے جحفہٗ اہل نجد کے لیے قرآن المنازل، اہل یمن کے لیے یلملم میقات مقرر فرمائے ہیں۔ یہ میقات ان ملکوں میں مقیم لوگوں کے لیے بھی ہیں اور ان لوگوں کے لیے بھی جو حج اور عمرے کے ارادہ سے ان اطراف سے آئیں، جو لوگ میقات کے اندر رہتے ہوں (مستقل یاعارضی) وہ اپنی رہائش گاہ سے ہی احرام باندھیں۔ حتی کہ اہل مکہ مکہ مکرمہ سے ہی احرام باندھیں۔ ]2
1 بخاری ؍ کتاب العمرۃ ؍ باب عمرۃ التنعیم 2 مسلم ؍ کتاب الحج ؍ باب فی المواقیت