سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(502) کیا تین مساجد ...کے علاوہ دوسری مساجد میں اعتکاف جائز ہے؟

  • 4870
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 1242

سوال

(502) کیا تین مساجد ...کے علاوہ دوسری مساجد میں اعتکاف جائز ہے؟
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ھل یجوز الاعتکاف فی المساجد سوی المساجد الثلاثۃ؟ ))

 2       کیا تین مساجد (المسجد الحرام ، المسجد النبوی ، المسجد الاقصیٰ)کے علاوہ دوسری مساجد میں اعتکاف جائز ہے؟                       (عبدالخبیر الاویسی الملتانی ، اللاہوری)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

أن الاعتکاف یجوز فی المساجد کلھا لقد قال الإمام البخاری رحمہ اللّٰہ الباری فی الباب الأول من أبواب الاعتکاف من جامعہ الصحیح: والاعتکاف فی المساجد کلھا لقولہ: ولا تباشروھن وأنتم عاکفون فی المساجد تلک حدود اللّٰہِ فَلا تَقربوھا… إلی آخر الآیۃ۔ ۱ھ

          وأما روایۃ: لا اعتکاف إلا فی ثلاثۃ مساجد۔ الخ۔ فضعیفۃ ، وعلی تقدیر صحتہا تکون خاصۃ بالاعتکاف الذی یکون مع شد الرحل لقول النبی  صلی الله علیہ وسلم: لا تشد الرحال إلا إلی ثلاثۃ مساجد۔ الحدیث رواہ البخاری وإن شئت التفصیل فی ھذہ المسألۃ فارجع إلی ’’ نعمت الأثاثۃ ‘‘ واللّٰہ أعلم۔ ))

[بے شک اعتکاف تمام مساجد میں جائز ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی کتاب صحیح البخاری میں ابواب الاعتکاف کے پہلے باب میں فرمایا ہے کہ اعتکاف ہر ایک مسجد میںدرست ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: جب تم مساجد میں اعتکاف کیے ہوئے ہو تو اپنی بیویوں سے ہم بستری نہ کرو۔ یہ اللہ کی حدود ہیں۔ اس لیے انہیں (توڑنے کے) قریب بھی نہ جاؤ۔ اللہ تعالیٰ اپنے احکامات لوگوں کے لیے اس طرح بیان فرماتا ہے ، تاکہ وہ (گناہ سے) بچ سکیں۔ [البقرۃ:۱۸۷]

مگر وہ روایت جس میں یہ لفظ ہیں کہ : ’’ اعتکاف صرف تین مساجد میں ہوتا ہے۔‘‘ یہ روایت ضعیف ہے اور اگر وہ صحیح بھی ہو تو اس سے مراد وہ اعتکاف ہوگا جو کجاوے باندھ کرکیا جائے۔ کیونکہ رسول اللہ  صلی الله علیہ وسلم کافرمان ہے:

’’ نہ کجاوے باندھے جائیں، مگر تین مساجد کی طرف ، مسجد الحرام ، میری مسجد اور مسجد اقصیٰ۔ ‘‘ اسے بخاری نے روایت کیا ہے۔

اگر آپ اس مسئلہ کی تفصیل چاہتے ہیں تو ’’ نعمت الاثاثۃ ‘‘کی طرف رجوع کریں۔]

                                                                             ۹ ؍ ۸ ؍ ۱۴۲۳ھ

 

قرآن وحدیث کی روشنی میں احکام ومسائل

جلد 02 ص 440

محدث فتویٰ

تبصرے