سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(480) زکوٰۃ کی رقم کو جمع کرکے کسی رفاہی کام یعنی سڑک ، گلی..الخ

  • 4848
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-19
  • مشاہدات : 1306

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا زکوٰۃ کی رقم کو جمع کرکے کسی رفاہی کام یعنی سڑک ، گلی ، مدرسہ وغیرہ پر خرچ کرنا چاہیے یا صرف غرباء کو دینی چاہیے؟   (کلیم انور، ہزارہ)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

صدقہ و زکوٰۃ کے مصرف ہیں آٹھ … سورۂ توبہ کی آیت نمبر ہے ساٹھ۔ { إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَآئِ وَالْمَسَاکِیْنِ وَالْعَامِلِیْنَ عَلَیْھَا وَالْمُؤَلَّفَۃِ قُلُوْبُھُمْ} وَفِی الرِّقَابِ وَالْغَارِمِیْنَ وَفِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَابْنِ السَّبِیْلِ فَرِیْضَۃً مِّنَ اللّٰہِ وَاللّٰہُ عَلِیْمٌ حَکِیْمٌ} [التوبہ:۶۰]

 ’’ صدقے صرف فقیروں کے لیے ہیں اور مسکینوں کے لیے اور ان کے وصول کرنے والوں کے لیے اور ان کے لیے جن کے دل پرچائے جاتے ہوں اور گردن چھڑانے میں اور قرض داروں کے لیے اور اللہ کی راہ میں اور مسافروں کے لیے فرض ہے، اللہ کی طرف سے اور اللہ علم و حکمت والا ہے۔‘‘ ]فی سبیل اللہ سے مراد جہاد فی سبیل اللہ ہے۔ [فی سبیل اللہ سے مراد جہاد ہے یعنی جنگی سامان و ضروریات اور مجاہد (چاہے وہ مال دار ہی ہو) پر زکوٰۃ کی رقم خرچ کرنا جائزہے۔ [تفسیر احسن البیان]رسول اللہ  صلی الله علیہ وسلم کا فرمان ہے:  (( أَوْ غَازٍ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ )) رسول اللہ  صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ مالدار پر زکوٰۃ حرام ہے ، سوائے پانچ قسم کے مالداروں کے ۔ ایک تو وہ جو زکوٰۃ وصول کرنے پر مقرر ہو۔

دوسرا وہ جو مال زکوٰۃ کی کسی چیز کو اپنے مال سے خرید لے ۔

تیسرا قرض دار۔                         چوتھا اللہ کے راستے کا غازی مجاہد۔

پانچواں وہ جسے کوئی مسکین بطور تحفے کے اپنی کوئی چیز جو زکوٰۃ میں اسے ملی ہو، دے۔‘‘

 معلوم ہو آپ کا ذکر کردہ مصرف ’’ رفاہِ عامہ ‘‘ ان مندرجہ بالا آٹھ مصارف سے خارج ہے۔ واللہ اعلم ۔

اکثر ائمہ سلف کے اقوال کے مطابق اس کا بہترین مصرف جہاد فی سبیل اللہ میں خرچ کرنا ہے اور قتال فی سبیل اللہ اسی کا ایک اہم شعبہ ہے۔ [تفسیر تیسیر القرآن]  فی سبیل اللہ سے مراد مجاہدین وغازی ہیں۔ [تفسیر ابن کثیر]

اللہ کے راستے بہت سارے ہیں، لیکن میں اس کے بارے نہیں جانتا کہ کسی نے اس بات میں اختلاف کیا ہو کہ یہاں سبیل اللہ سے مراد لڑائی یا غزوہ ہے۔ [احکام القرآن :۲؍۹۶۹]            ۱۶ ؍ ۷ ؍ ۱۴۲۳ھ

 

قرآن وحدیث کی روشنی میں احکام ومسائل

جلد 02 ص 415

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ