زکوٰۃ فنڈ جو جامعات کی مدیرات کے اختیار میں ہوتا ہے اس کو وہ کہاں اور کس طرح خرچ کرسکتی ہیں کیا اعلیٰ بلڈنگ جو زکوٰۃ فنڈ سے بنائی جاتی ہے، وہ کس حد تک درست ہے۔ اور اعلیٰ چیزیں قیمتی سامان زکوٰۃ فنڈ کی رقم سے خریدنا جائز ہے۔ اور جو مدیرات وظیفہ لیتی ہیں وہ کس قدر لے سکتی ہیں۔ کیا ان کے لیے کل زکوٰۃ فنڈ سے آٹھواں حصہ لینا جائز ہے۔ آپ زکوٰۃ فنڈ کی شرعی شرائط جو اس کے تصرف کے بارے میں قرآن و حدیث میں موجود ہیں ، بالتفصیل ذکر فرمادیں؟ جزاک اللّٰہ خیرًا۔
قرآنِ مجید میں ہے: { إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَآئِ وَالْمَسَاکِیْنِ وَالْعَامِلِیْنَ عَلَیْھَا وَالْمُؤَلَّفَۃِ قُلُوْبُھُمْ وَفِی الرِّقَابِ وَالْغَارِمِیْنَ وَفِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَابْنِ السَّبِیْلِ فرِیْضَۃً مِّنَ اللّٰہِ وَاللّٰہُ عَلِیْمٌ حَکِیْمٌ}[ ’’ صدقے صرف فقیروں کے لیے ہیں اور مسکینوں کے لیے اور ان کے وصول کرنے والوں کے لیے اور ان کے لیے جن کے دل پرچائے جاتے ہوں اور گردن چھڑانے میں اور قرض داروں کے لیے اور اللہ کی راہ میں اور مسافروں کے لیے فرض ہے، اللہ کی طرف سے اور اللہ علم و حکمت والا ہے۔‘‘ ]
صدقہ و زکوٰۃ کے مصرف ہیں فقط آٹھ۔ سورۂ توبہ کی آیت نمبر ہے ساٹھ۔ تو ان مذکورہ بالا آٹھ مصارف کے علاوہ کہیں بھی صدقہ اور زکوٰۃ کا مال صرف نہیں کیا جاسکتا۔ اسراف منع ہے کفایت شعاری سے کام لیتے اور فضول خرچی سے اجتناب کرتے ہوئے ضرورت کے مطابق مذکورہ بالا آٹھ قسم کے لوگوں کی خاطر عمارت بنائی جاسکتی ہے۔ نیز ان کی خاطر ضرورت کے مطابق سامان خریدا جاسکتا ہے۔ مدیر اور مدیرہ کے وظیفہ کی تعیین کہیں نہیں آئی اور نہ ہی آٹھویں حصے کی تعیین کہیں وارد ہوئی ہے۔ مدارس میں استاد اور استانیوں کے وظائف مقرر کرتے ہوئے جس اقتصاد و کفایت کا اظہار کیا جاتا ہے مدیر اور مدیرہ کو اپنے لیے بھی اسی اصول کو اپنانا ہوگا۔ آخر صدقہ و زکوٰۃ کا مال ہے اس مقام پر ’’ مالِ مفت دلِ بے رحم ‘‘ والی کیفیت نہیں ہونی چاہیے۔ ۱۲ ؍ ۵ ؍ ۱۴۲۱ھ