سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(473) زکوٰۃ کے پیسوں سے مدرسوں میں تعلیم جائز؟

  • 4841
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-19
  • مشاہدات : 928

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میرے دو چھوٹے بھائی معہد العالی مریدکے میں زیر تعلیم ہیں اور قرآن و حدیث کا علم حاصل کررہے ہیں۔ آپ جانتے ہیں کہ مدارس میں بچوں کی تعلیم پر جو پیسہ خرچ ہوتا ہے وہ زکوٰۃ و صدقات کا مال ہوتا ہے۔ میرے ذہن میں شروع سے یہ خلش موجود ہے کہ ہر خاص و عام کا وہاں اپنے بچوں کو پڑھانا جائز نہیں، بلکہ انہیں اپنے وسائل سے ان کی تعلیم کا بندوبست کرنا چاہیے۔ وہاں صرف نادار اور غریب لوگوں کے بچوں کا حق ہے۔ ہماری ماہانہ اوسطاً آمدن کم و بیش 5000/ روپے ہے اور ہماری فیملی بمعہ دو زیر تعلیم بچوں کے 9 افراد پر مشتمل ہے، جس میں ایک چھوٹا بچہ شامل ہے۔ اور باقی سب مکمل افراد ہیں۔ براہِ کرم قرآن و سنت کی روشنی ڈال کر اپنا مفید مشورہ دیں کہ اس بارے میں کیا خیال ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

صدقہ و زکوٰۃ کے مصرف ہیں آٹھ۔ سورۂ توبہ کی آیت نمبر ہے ساٹھ۔ اگر آپ ان مصارف ثمانیہ سے کسی مصرف کا مصداق ہیں تو آپ کے لیے صدقہ و زکوٰۃ حلال اور طیب ورنہ آپ صدقہ و زکوٰۃ کا مصرف نہیں۔ اس لیے صدقہ و زکوٰۃ اس صورت میں آپ کے لیے درست نہیں۔        ۴ ؍ ۸ ؍ ۱۴۲۱ھ

 


قرآن وحدیث کی روشنی میں احکام ومسائل

جلد 02 ص 411

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ