ہم نے ایک بھائی کو 000,40 روپے ادھار دیا ہے۔ اب وہ ٹال مٹول کرتا ہے اور اس بات کو دو تین سال گزر چکے ہیں اور پیسے واپس ملنے کی امید بھی ہے اور وہ بھی اس طرح کہ کبھی ہزار کبھی دو ہزار اور کبھی اس سے کم و بیش تو اس صورت میں بتائیں کہ کیا ہم پر اس رقم کی زکوٰۃ ہے، اور کیا ایک سال کی زکوٰۃ واجب ہوگی یا جتنے سال رقم اس کے پاس رہے؟ (محمد ہاشم بن نذیر احمد یزمانی، جامعہ سلفیہ ، فیصل آباد)
جتنے سال رقم اس کے پاس رہے، ان تمام سالوں کی زکوٰۃ قرض و ادھار دینے والے کے ذمہ ہے۔
[عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ تعالیٰ نے ایک مال کے سلسلہ میں جسے بعض حاکموں نے ظلم سے چھین لیا تھا، لکھا ہے کہ مالک کو اس کا مال واپس کریں اور اس میں سے گزرے ہوئے سالوں کی زکوٰۃ وصول کرلیں اس کے بعد پھر خط لکھا کہ اس مال سے گزشتہ تمام سالوں کی زکوٰۃ نہ لی جائے، بلکہ صرف ایک دفعہ زکوٰۃ لے لی جائے، کیونکہ وہ مال ضمار تھا۔ 1
… جس مال کے واپس ملنے کا یقین ہو (مثلاً قرض یا پراویڈنٹ فنڈ وغیرہ) اس پر سال بہ سال زکوٰۃ ادا کرنا واجب ہے، لیکن جس مال کے واپس ملنے کی امید نہ ہو (مال ضمار) جب مل جائے تو گزشتہ تمام سالوں کی زکوٰۃ ادا کرنے کی بجائے مال ضمار کی طرح ایک مرتبہ زکوٰۃ ادا کردینا کافی ہے۔] ۷ ؍ ۱۲ ؍ ۱۴۲۳ھ