سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(460) روح کے بدن میں واپس لوٹائے جانے کی غلط روایت؟

  • 4828
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-17
  • مشاہدات : 1915

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

روح کے بدن میں واپس لوٹائے جانے کی غلط روایت: ’’ براء بن عازب  رضی اللہ عنہ سے منسوب روایت کہ ہر مرنے والے کی روح سوال و جواب سے پہلے اس کے جسم میں لوٹائی جاتی ہے۔ ‘‘ 1یہ روایت بھی ضعیف ہے اور ناقابل اعتبار ہے۔ سند یوں ہے:  (( عن احمد بن حنبل عن ابی معاویۃ عن الاعمش عن منھال بن عمرو عن زاذان عن براء بن عازب رضی اللہ عنہ ))  اس روایت میں بھی شیعہ زاذان ہے، جس کو سلمہ بن کہیل ابو البختری سے بھی کمتر سمجھتے ہیں، اور دوسرا اس کا شاگرد منہال بن عمرو ہے۔ عبداللہ کہتے ہیں کہ میرے والد احمد بن حنبل کہتے تھے کہ ابو بشر مجھ کو منہال سے زیادہ بھلا لگتا ہے۔ اور اس ابو بشر جعفر بن ایاس کو شعبہ نے ضعیف کہاہے۔ ابن معین منہال کی شان گراتے تھے، حاکم نے کہا کہ یحییٰ القطان اس کو ضعیف گردانتے تھے اور ابو محمد بن حزم بھی اس کو ضعیف کہتے تھے، اور اس کی اس براء بن عازب  رضی اللہ عنہ والی روایت کو رد کرتے تھے۔ 2 معلوم ہوا کہ مرنے والے کے دنیاوی جسم میں روح کا واپس لوٹایا جانا غلط ہے؟… 3

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

1 رواہ احمد ، مشکوٰۃ، ص:۱۴۲

2 تہذیب التہذیب ، جلد ۱۰ ، ص:۳۱۹ ، ۳۲۰ ، میزان الاعتدال ، جلد:۳ ، ص:۲۰۴

3 بحوالہ یہ مزار صفحہ:۲۱ ، ڈاکٹر عثمانی


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

روح کے بدن میں لوٹائے جانے کی براء بن عازب  رضی اللہ عنہ والی حدیث پر آپ نے دو حکم لگائے، غلط روایت اور ضعیف روایت۔ جبکہ آپ کی یہ دونوں باتیں درست نہیں۔ کیونکہ یہ حدیث نہ غلط ہے، نہ ضعیف۔ بلکہ حسن صحیح ہے۔ چنانچہ محدث دوراںشیخ البانی l تعلیق مشکاۃ میں لکھتے ہیں:1 (( وإسنادہ صحیح )) صاحب تنقیح الرواۃl فرماتے ہیں: (( وحدیث براء بن عازب ھذا رواہ أیضا النسائی وابن ماجہ، والحاکم ، وقال: صحیح علی شرط الشیخین ، وابن خزیمۃ والبیہقی ، والضیاء فی المختارۃ ، وأبو عوانۃ الإسفراینی فی صحیحہ ، وابن مندہ فی کتاب الروح والنفس، ، ولہ شاہد عن أبی سعید عند أحمد وابن أبی الدنیا فی ذکر الموت ، وابن أبی عاصم فی السنۃ ، والنسائی وابن جریر ، والبیہقی فی عذاب القبر ، وصحح ، وقد تکلم ابن حزم فی المنہال وھو راوی الحدیث ، ولا یلتفت إلیہ بعد احتجاج الشیخین بہ۔ ۱ ھ ))

صاحب مرعاۃ المفاتیح l لکھتے ہیں:(( (رواہ أحمد وأبو داوٗد) فی السنۃ ، وأخرجہ أیضا النسائی ، وابن ماجہ مختصرا ، والبیہقی ، وقال: ھذا حدیث صحیح الإسناد۔ والحاکم ، وقال: صحیح علی شرط الشیخین۔ وقال المنذری فی الترغیب بعد ذکر الحدیث من روایۃ الإمام أحمد: ھذا حدیث حسن رواتہ محتج بھم فی الصحیح ، وھو مشہور بالمنہال ابن عمرو عن زاذان عن البرائ۔ کذا قال أبو موسی الأصبہانی والمنہال وثقہ ابن معین والعجلی وروی لہ البخاری حدیثا واحدا ، ولزاذان فی کتاب مسلم حدیثان۔ ۱ ھ ))

آپ نے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تعالیٰ کا کلام نقل فرمایا، ظاہر یہی ہے آپ نے اس پر اعتماد بھی کیا۔ اسی لیے مناسب ہے کہ اس حدیث کے متعلق حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تعالیٰ کا فیصلہ بھی نقل کردیا جائے، تاکہ آپ کو ایک گنا اطمینان و سکون حاصل ہوجائے۔ چنانچہ حافظ صاحب موصوف رحمہ اللہ تعالیٰ اپنی مایہ ناز کتاب ’’ فتح الباری ‘‘ میں لکھتے ہیں: (( وقد رواہ زاذان أبو عمر عن البراء مطولا مبینا أخرجہ أصحاب السنن ، وصححہ أبو عوانۃ وغیرہ ، وفیہ من الزیادۃ فی أولہ: استعیذوا باللّٰہ من عذاب القبر۔ وفیہ: فترد روحہ فی جسدہ۔ وفیہ: فیأتیہ ملکان فیجلسانہ الخ وقال فی موضع من ھذہ الباب:

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

1 مشکوٰۃ ؍ کتاب الجنائز ؍ باب ما یقال عند من حضرہ الموت

وقد أخذ ابن جریر ، وجماعۃ من الکرامیۃ من ھذہ القصۃ أن السؤال فی القبر یقع علی البدن فقط ، وأن اللّٰہ یخلق فیہ إدراکا بحیث یسمع ویعلم ویلذویألم ، وذہب ابن حزم وابن ھبیرۃ إلی أن السؤال یقع علی الروح فقط من غیر عود إلی الْجسد۔ وخالفھم الجمہور ، فقالوا: تعاد الروح إلی الجسد أو بعضہ کما ثبت فی الحدیث ولوکان علی الروح فقط لم یکن للبدن بذلک اختصاص۔ الخ وقال فی موضع منہ: قولہ: فیقعد انہ۔ زاد فی حدیث البرائ: فتعاد روحہ فی جسدہ۔ کما تقدم فی أول أحادیث الباب۔ الخ

وقال فی أواخر الباب: وفیہ أن المیت یحیا فی قبرہ للمسألۃ خلافا لمن ردہ ، واحتج بقولہ تعالی: قالوا ربنا أمتنا اثنتین وأحییتنا اثنتین۔ الآیۃ قال: فلوکان یحیا فی قبرہ للزم أن یحیا ثلاث مرات ، ویموت ثلاث مرات وھو خلاف النص۔ والجواب بأن المراد بالحیاۃ فی القبر للمسألۃ لیست الحیاۃ المستقرۃ المعہودۃ فی الدنیا التی تقوم فیہا الروح بالبدن ، وتدبیرہ ، وتصرفہ ، وتحتاج إلی مایحتاج إلیہ الأحیاء ، بل ھی مجرد إعادۃ لفائدۃ الامتحان الذی وردت بہ الأحادیث الصحیحۃ فہی إعادۃ عارضۃ۔ الخ ))  [۳ ؍ ۲۳۴ ـ ۲۳۵ ـ ۲۳۷ ـ ۲۳۸]

(( یقول النور فوری: إن قول الحافظ بل ھی مجرد إعادۃ لفائدۃ الامتحان۔ وقولہ: فہی إعادۃ عارضۃ فلیسا بصواب لأن الثواب اوا العذاب الذی یحصل للمیت فی القبر والبرزخ بعد المسألۃ والامتحان یستمر إلی یوم القیامۃ کما نص علیہ فی الأحادیث الصحیحۃ ، ومعلوم أن الثواب والعذاب یستلزمان۔  الحیاۃ ولو فی القبر والبرزخ و ھذا لاینافی قول الکفار ربنا امتنا اثنتین…الخ ـ لأنھم یعنون بالموتتین الموتۃ قبل ولادتھم ، والموتۃ التی تقطع حیاتھم الدنیویۃ ، وبالحیاتین حیاتھم الدنیویۃ ، وحیاتھم التی حین بعثھم اللّٰہ من قبورھم ، وھذا کما قال اللّٰہ تبارک وتعالیٰ: کیف تکفرون باللّٰہ وکنتم أمواتا فأحیاکم ثم یمیتکم ثم یحییکم ثم إلیہ ترجعون۔ وھذا قلناہ استطرادا وإلا فإنما مقصودنا أن الحافظ ابن حجر رحمہ اللّٰہ تعالیٰ من الذین یثبتون ویصححون حدیث البراء بن عاذب  رضی اللہ عنہ فی رد الروح إلی الجسد فی القبر ،و أیضا ھو من الذین یقولون بأن الثواب والعذاب فی القبر والبرزخ یحصلان للروح مع الجسد أو الجسد مع الروح لا للجسد فقط ، ولا للروح فقط۔ ))

آپ نے دیکھ لیا کہ براء بن عازب  رضی اللہ عنہ کی رد روح والی حدیث کو کتنے بڑے بڑے محدثین عظام نے صحیح و حسن قرار دیا ہے، اس کے بعد اس کی سند میں وارد راوی منہال بن عمرو اور زاذان کی توثیق و تثبیت کی چنداں ضرورت تو نہ تھی، کیونکہ ان سب محدثین کے ہاں وہ دونوں ثقہ ہیں، ورنہ وہ ان کے متفرد ہونے کے باوصف ان کی حدیث کو صحیح یا حسن کہنے کے مجاز نہ تھے، چونکہ آپ نے ان دونوں راویوں پر حرف گیری کی ہے، اس لیے آپ کی اس خواہ مخواہ حرف گیری کاجواب لکھا جاتا ہے۔

آپ لکھتے ہیں: ’’ اس روایت میں بھی شیعہ زاذان ہے۔جس کو سلمہ بن کہیل ابو البختری سے بھی کمتر سمجھتے ہیں۔‘‘ جواباً گزارش ہے کہ تہذیب التہذیب میں لکھا ہے: (( قال ابن الجنید عن ابن معین ثقۃ لا یسأل عن مثلہ۔ وقال ابن عدی: أحادیثہ لا بأس بھا إذا روی عنہ ثقۃ۔ وقال ابن سعد: کان ثقۃ کثیر الحدیث۔ وقال ابن عدی: روی عن ابن مسعود وتاب علی یدیہ۔ وقال الخطیب: کان ثقۃ۔ وقال العجلی: کوفی تابعی ثقۃ۔ انتہی بالاقتصار۔ )) 

رہا زاذان کو شیعہ قرار دینا تو وہ درست نہیں۔ حافظ ابن حجر نے تقریب میں صرف اتنا فرمایا ہے کہ اس میں کچھ شیعیت ہے۔ جیسا کہ آپ نے خود ترجمہ فرمایا: ’’ فیہ شیعیۃ ‘‘( اس میں شیعیت ہے۔) تو اب کے شیعیت کو شیعہ بنانے والوں کو کچھ نہ کچھ تو ضرور حاصل ہوگا، کیونکہ یہ بھی تو ایک کارنامہ ہی ہے نا۔

پھر شیعیت تو شیعیت شیعہ ہونا بھی باعث ضعف نہیں، جبکہ اس میں اور کوئی سبب ضعف موجود نہ ہو، کیونکہ اہل بدعت غیر مکفرہ میں صحیح بات یہی ہے ، وہ اگر داعیہ نہ ہوں ، تو ان کی روایت بوجہ ان کی بدعت کے ضعیف نہیں بنے گی۔ مقدمہ فتح الباری ، شرح نخبہ، مقدمہ ابن صلاح ، تدریب الراوی ، ارشاد الفحول وغیرہ۔ پھر دیکھئے ابوالبختری جن کو آپ اور آپ کے ہمنوا زاذان سے بیشتر سمجھ رہے ہیں۔ شیعیت ان میں بھی پائی جاتی تھی۔ حافظ ابن حجر ہی لکھتے ہیں: (( وقال العجلی: تابعی ثقۃ فیہ تشیع۔ )) [تہذیب التہذیب]اور تقریب میں فرماتے ہیں: (( فیہ تشیع قلیل )) اگر شیعیت باعث ضعف ہے ، تو آپ کو چاہیے ابو البختری کو بھی ضعیف قرار دیں، جبکہ ابو البختری ثقہ ثبت اور بخاری و مسلم کے رجال میں سے ہیں۔ جن سے شیخین نے احتجاج کیا ہے۔

باقی آپ کا لکھنا ’’ جس کو سلمہ بن کہیل ابو البختری سے بھی کم تر سمجھتے ہیں۔‘‘ بھی کے اضافہ کے ساتھ اور احب کا ترجمہ کمتر کرکے تو وہ آپ لوگوں کی رنگ آمیزی اور مغالطہ دہی ہے، ورنہ سلمہ بن کہیل کے الفاظ ان باتوں پر دلالت نہیں کرتے۔ آئیے ان کے الفاظ پڑھیں۔ تہذیب التہذیب میں ان کے الفاظ یہ ہیں: (( ابو البختری احب إلی منہ )) اور میزان الاعتدال میں ان کے الفاظ یہ ہیں: (( ابو البختری أعجب إلی منہ )) ترجمہ یہ ہے ابو البختری میرے ہاں اس سے زیادہ محبوب پسندیدہ ہے۔مقصد واضح ہے کہ سلمہ بن کہیل ابو البختری اور زاذان دونوں کو محبوب و پسندیدہ سمجھتے ہیں۔

البتہ ابو البختری کو زاذان سے زیادہ محبوب و پسندیدہ گردانتے ہیں۔ آپ سوچیے اس عبارت سے بھلا زاذان کی تضعیف نکلتی ہے؟ نہیں ہرگز نہیں۔ چنانچہ تقریب میں حافظ صاحب ابو البختری کے متعلق لکھتے ہیں: (( ثقۃ ثبت فیہ تشیع قلیل کثیر الإرسال )) اور زاذان کے متعلق لکھتے ہیں: (( صدوق یرسل وفیہ شیعیۃ ))

آپ لوگوں نے ’’ جس کو سلمہ بن کہیل ابوالبختری سے بھی کم تر سمجھتے ہیں۔‘‘ لکھ کر تأثر دیا ہے کہ ابو البختری کوئی ضعیف و کم راوی ہے اور زاذان ابوالبختری سے بھی ضعیف و کمتر ہے۔ إِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ  سُبْحَانَکَ ھٰذَا بُھْتَانٌ عَظِیْمٌ۔

حقیقت وہی ہے جوواضح کی جاچکی ہے کہ ابو البختری اور زاذان دونوں ہی سلمہ بن کہیل کے ہاں محبوب، پسندیدہ اور ثقہ ہیں۔ البتہ ابوالبختری ان کے ہاں زاذان سے زیادہ محبوب ، پسندیدہ اور ثقہ ہیں۔

رہا معاملہ منہال بن عمرو والا تو یاد رہے اس میں بھی آپ کی اور آپ کے ہمنواؤں کی حالت زاذان والے معاملہ سے مختلف نہیں، کیونکہ منہال بن عمرو بھی ثقہ ہیں، جن کو ضعیف بنانے پہ آپ لوگ ادھار کھائے بیٹھے ہیں۔ چنانچہ امام احمد بن حنبل ، یحییٰ بن معین ، نسائی ، ابن حبان ، ابو الحسن بن القطان اور عجلی انہیں ثقہ قرار دیتے ہیں۔ [تہذیب التہذیب، میزان الاعتدال]حافظ ابن حجر تقریب میں فرماتے ہیں: ’’ صدوق ربما وھم ‘‘

آپ لکھتے ہیں: ’’ احمد بن حنبل کہتے تھے کہ ابو بشر مجھ کو منہال سے زیادہ بھلا لگتا ہے اور اس ابو بشر جعفر بن ایاس کو شعبہ نے ضعیف کہا ہے۔‘‘ اس میں آپ باور یہ کرانا چاہتے ہیں کہ منہال بن عمرو امام احمد بن حنبل کے ہاں ابوبشر سے بھی ضعیف ہے، کیونکہ ابوبشر شعبہ کے ہاں ضعیف ہے اور یہ ابوبشر امام احمد کے نزدیک منہال سے زیادہ بھلا ہے تو ابوبشر ضعیف جب امام احمد کے ہاں منہال سے زیادہ بھلا ٹھہرا تو لامحالہ منہال امام احمد کے ہاں ضعیف تر راوی ہوا، پھر اس قول میں آپ نے یہ بھی باور کرایا ہے کہ امام احمد ابو بشر کو بھی ضعیف سمجھتے ہیں۔  إِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ  سُبْحَانَکَ ھٰذَا بُھْتَانٌ عَظِیْمٌ۔ کیونکہ امام احمد بن حنبل نہ تو ابوبشرکو ضعیف سمجھتے ہیں اور نہ ہی منہال کو۔ دیکھئے حافظ ذہبی نے میزان میں امام احمد کے الفاظ نقل فرمائے ہیں: (( أبو بشر أحب إلی من المنہال وأوثق )) جس کا صاف صاف مطلب یہ ہے کہ ابوبشر اور منہال دونوں ہی امام احمد کے ہاں حبیب و ثقہ ہیں، البتہ ابوبشر ان کے ہاں منہال سے أحب و أوثق ہے اور تہذیب التہذیب میں امام احمد کے الفاظ اس طرح ہیں: (( أبو بشر أحب إلی من المنہال وقال: نعم شدیدا أبوبشر أوثق إلا أن المنہال أسن )) ان الفاظ کا مطلب بھی وہی ہے کہ ابو بشر اور منہال دونوں ہی امام احمد کے ہاں حبیب و ثقہ ہیں۔ البتہ ابوبشر ان کے ہاں منہال سے احب و أوثق ہے، ہاں منہال ابوبشر سے عمر میں بڑا ہے۔

رہا آپ کا فرمانا: ’’ اس ابوبشر جعفر بن إیاس کو شعبہ نے ضعیف کہا ہے۔‘‘ جس کو آپ نے ابوبشر کے امام احمد کے ہاں ضعیف ہونے کی دلیل بنایا ہے، تو یہ سراسر مغالطہ اور بہتان ہے۔ کیونکہ شعبہ نے ابوبشر کو ضعیف نہیں کہا۔ پھر اگر بالفرض وہ اس کو ضعیف کہہ بھی دیتے تو اس کو امام احمد کے ہاں ابوبشر کے ضعیف ہونے کی دلیل بنانا درست نہیں، کیونکہ امام احمد شعبہ وغیرہ کے مقلد نہیں۔ خصوصاً جبکہ امام احمد ثقہ منہال سے ابوبشر کے احب و أوثق ہونے کی تصریح فرمارہے ہیں تو شعبہ کے ابوبشر کو بالفرض ضعیف کہنے کو امام احمد کے ہاں اس کے ضعیف ہونے کی دلیل بنانا سراسر ظلم و ناانصافی ہے۔

ابوبشر جعفر بن ایاس واسطی کے متعلق حافظ ذہبی میزان میں فرماتے ہیں: ’’ صحاح ستہ کا راوی ہے، ثقہ راویوں میں سے ایک ثقہ راوی ہے۔‘‘ نیز فرماتے ہیں: (( أوردہ ابن عدی فی کاملہ فأساء ))  کہ ابن عدی نے انہیں کامل میں ذکر کیا توبرا کیاہے۔ جس کا مطلب ہے کہ ابوبشر بالاتفاق ثقہ ہیں۔ کامل ابن عدی کے موضوع میں شامل نہیں، کیونکہ کامل کا موضوع بالاتفاق ضعیف راوی یا بالاختلاف ضعیف راوی کو ذکر کرنا ہے بالاتفاق ثقہ راوی کو ذکر کرنا اس کتاب کے موضوع میں شامل نہیں۔

ابوبشرکو امام احمد کا ثقہ بلکہ اوثق قرار دینا تو گزر چکا ہے، ان کے علاوہ ابوبشر کو ثقہ قرار دینے والے محدثین کرام کے اسماء گرامی مندرجہ ذیل ہیں۔ یحییٰ بن معین، ابوزرعہ ، ابوحاتم ، عجلی، نسائی ، ابن حبان، ابن عدی اور برد یجی وغیرھم۔ رہے شعبہ تو انہوں نے بھی ابوبشر کو ضعیف نہ سمجھا اور نہ قرار دیا اور نہ ہی ضعیف کہا۔ چنانچہ تہذیب التہذیب وغیرہ میں ہے: (( کان شعبۃ یضعف أحادیث أبی بشر عن حبیب بن سالم )) نیز تہذیب التہذیب وغیرہ میں ہے: (( کان شعبۃ یضعف حدیث أبی بشر عن مجاہد )) مطلب یہ ہے کہ شعبہ ابوبشر کی حبیب بن سالم اور مجاہد سے روایت کردہ احادیث کو ضعیف گردانتے ہیں، کیوں؟ اس لیے کہ شعبہ سمجھتے تھے ابوبشر کا حبیب بن سالم اور مجاہد سے سماع نہیں۔ چنانچہ اس کی وضاحت بھی تہذیب التہذیب وغیرہ میں موجود ہے: (( وکان شعبۃ یقول: لم یسمع أبو بشر من حبیب بن سالم  وقال: لم یسمع منہ (یعنی من مجاہد) شیئا )) تو ثابت ہوگیا کہ شعبہ نے ابوبشر کو ضعیف نہیں کہا۔ ہاں ابوبشر کی حبیب بن سالم اور مجاہد سے احادیث کو ضعیف کہا ہے وہ بھی بوجہ انقطاع و عدم سماع نہ کہ ابوبشر کے ضعیف ہونے کی وجہ سے۔

شعبہ نے ابوبشر سے حبیب بن سالم اور مجاہد کے علاوہ رواۃ سے بیان کردہ احادیث لی ہیں اور امام بخاری نے انہیں صحیح بخاری میں بھی درج فرمایا ہے۔ چنانچہ امام بخاری کتاب الجنائز ؍ باب ماقیل فی اولاد المشرکین میں فرماتے ہیں: (( حدثنا حبان: أخبرنا عبداللّٰہ: اخبرنا شعبۃ عن أبی بشر عن سعید بن جبیر عن ابن عباس قال: سئل رسول اللّٰہ  صلی الله علیہ وسلم عن أولاد المشرکین؟ فقال: اللّٰہ إذ خلقھم أعلم بما کانوا عاملین۔ ))

اس کی مثال یوں سمجھ لیں کہ یزید بن رومان کی عمر بن خطاب  رضی اللہ عنہ سے حدیث ضعیف ہے، اسی طرح حسن بصری کی ابوہریرہ اور علی  رضی الله عنہ سے حدیث ضعیف ہے، بوجہ انقطاع و عدم سماع۔ اب اس سے کوئی یزید بن رومان اور حسن بصری کو ضعیف گرداننا شروع کردے تو یہ اس کی لاعلمی اور بے سمجھی ہے یا پھر ’’ جوچاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے‘‘ والا معاملہ ہے۔

آپ لکھتے ہیں: ’’ ابن معین منہال کی شان گراتے تھے۔‘‘ اس کے متعلق اولاً گزارش ہے کہ ابن معین کے لفظ تہذیب التہذیب میں اس طرح ہیں: (( کان ابن معین یضع من شان المنہال بن عمرو ))  جس کا ترجمہ بنتا ہے ابن معین منہال کی شان سے کچھ گراتے تھے۔ آپ والا ترجمہ نہیں بنتا۔ ثانیاآپ اس کا مطلب لے رہے ہیں کہ منہال ابن معین کے ہاں ثقہ نہیں ضعیف ہے جبکہ اس عبارت کا یہ مطلب لینا سراسر غلط ہے، کیونکہ ابن معین نے صاف اور واشگاف الفاظ میں فرمادیا ہے کہ ’’ منہال بن عمرو ثقہ ہے۔‘‘ [تہذیب التہذیب، میزان الاعتدال] لہٰذا اس شان سے مراد ان کے ثقہ ہونے کے علاوہ کوئی اور شان مراد ہے۔ لامحالہ جن کو تہذیب التہذیب میں ابن معین کے متعلق غلابی کا قول: (( کان یضع من شان المنہال بن عمرو )) نظر آگیا، انہیں اسی تہذیب التہذیب میں اس سے پہلے ابن معین کا قول کہ منہال بن عمرو ثقہ ہے بھی نظر تو آگیا تھا، لیکن انہوں نے اسے درخوراعتنا نہ سمجھا آخر کیوں؟ کچھ تو ہے ، جس کی پردہ داری ہے۔ یادرہے ایسے کام علم و دین کی کوئی خدمت نہیں، بلکہ اپنی عاقبت خراب کرنے والا معاملہ ہے۔ أعاذنا اللّٰہ من ذالک۔

آپ لکھتے ہیں: ’’ حاکم نے کہا کہ یحییٰ القطان اس کو ضعیف گردانتے تھے۔‘‘ اس میں بھی آپ لوگوں نے تلبیس ہی سے کام لیا ہے، کیونکہ تہذیب التہذیب میں الفاظ اس طرح ہیں: (( قال الحاکم: المنہال بن عمرو غمزہ یحیی القطان )) جس کا ترجمہ آپ نے فرمایا:’’ یحییٰ القطان اس کو ضعیف گردانتے تھے۔‘‘ جبکہ اس عبارت کا ترجمہ آپ والا نہیں بنتا۔ کیونکہ لفظ: (( ضعفہ یحیی القطان وغیرہ ممایدل علی التضعیف نصا ))  نہیں، بلکہ لفظ ہیں: (( غمزہ یحیی القطان )) اور غمز تضعیف میں نص نہیں۔ تضعیف کے علاوہ کسی اور چیز کی طرف بھی اشارہ ہوسکتا ہے۔ جیسے آپ پہلے ملاحظہ فرماچکے ہیں کہ یحییٰ بن معین منہال بن عمرو کو بذاتِ خود ثقہ بھی کہہ رہے ہیں اور اس کی شان سے کچھ گرا بھی رہے ہیں۔

آپ لکھتے ہیں: ’’ ابومحمد بن حزم بھی اس کو ضعیف کہتے تھے۔‘‘ الخ ، تو آپ کو علم ہے اہل علم اس بات میں ابن حزم کا رد فرما چکے ہیں۔ چنانچہ تہذیب التہذیب میں ہے: (( وقال أبو الحسن بن القطان: کان أبو محمد بن حزم یضعف المنہال ، ورد من روایتہ حدیث البراء ، ولیس علی المنہال حرف فیما حکی ابن ابی حازم فذکر حکایتہ المتقدمۃ۔ قال: فإن ھذا لیس بجرح إلا أن تجاوز إلی حد تحریم ، ولم یصح ذلک عنہ ، وجرحہ بھذا تعسف ظاہر ، وقد وثقہ ابن معین والعجلی )) اس مقام پر آپ لوگوں نے لا تقربوا الصلاۃ پڑھنے اور’’ وانتم سکاری‘‘ نہ پڑھنے والا کام کیا ہے، کیونکہ تہذیب التہذیب سے ابو الحسن بن القطان کا کلام: (( کان أبو محمد بن حزم یضعف المنہال ورد من روایتہ حدیث البراء ))  تو نقل فرمادیا، مگر اس کے بعد اس کے رد میں ابو الحسن بن القطان کا کلام : (( ولیس علی المنہال الخ )) جیسے ہم پہلے نقل کر آئے۔ آپ لوگوں نے نہ کتابوں میں نقل کیا اور نہ ہی ویسے لوگوں کو بتایا۔ اس کو آپ دین کی خدمت اور نشرواشاعت سمجھتے ہیں تو سمجھیں۔ نفس الأمر اور واقع میں یہ دین کی کوئی خدمت نہیں نہ ہی یہ دین کی نشرو اشاعت ہے۔

آپ نے ڈاکٹر عثمانی کا تذکرہ فرمایاہے تو ان کی تسلی کی خاطر عرض ہے کہ زاذان تو ثقہ راوی اور رجال مسلم میں شامل ہیں اور منہال بن عمرو بھی ثقہ اور رجال شیخین میں شامل ہیں اور ان دونوں پہ جو جرح آپ نے نقل کی اس کا حال آپ کو معلوم ہوگیا ہے کہ وہ نفس الأمر اور واقع میں کوئی جرح نہیں، جو ان میں ضعف کا سبب بن سکے۔ اس کے برعکس کئی راوی ہیں، جن پہ اسماء رجال کی کتب میں جرح زاذان اور منہال والی بے وزن جرح سے کہیں شدید اور واقعی جرح نقل کی گئی ہے۔ اس کے باوصف ڈاکٹر عثمانی ان راویوں کو ثقہ بلکہ اوثق گردانتے ہیں اور کتابوں میں موجود جرح کو ان کے بارے میں درخوراعتناء نہیں سمجھتے اور زاذان اور منہال بن عمرو پر مغالطہ و تلبیس کے ذریعہ بنائی ہوئی جرح کو بڑی وقعت دے رہے ہیں۔ آیا یہ قسمۃ ضیزی والا معاملہ نہیں؟ عین الرضا کلیلۃ عن کل عیب ج وعین السخط تبدی المساویا                               ۱۱ جمادی الاوّل ۱۴۲۲ھ

 

قرآن وحدیث کی روشنی میں احکام ومسائل

جلد 02 ص 396

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ