سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نماز (فجر) پڑھنے کے بعد ( عموماً) ہماری طرف منہ کرکے بیٹھ جاتے اور پوچھتے کہ آج رات کسی نے کوئی خواب دیکھا ہو تو بیان کرے۔ راوی نے کہا کہ اگر کسی نے کوئی خواب دیکھا ہوتا تو اسے وہ بیان کردیتا اور آپ اس کی تعبیر اللہ کو جو منظور ہوتی،بیان
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 کتاب الجنائز ؍ للشیخ الالبانی حفظہ اللّٰہ تعالیٰ ، ص:۲۰۰
فرماتے۔ ایک دن آپ نے معمول کے مطابق ہم سے دریافت فرمایا : ’’ کیا آج رات کسی نے تم میں کوئی خواب دیکھا ہے؟ ‘‘ ہم نے عرض کی کہ کسی نے نہیں دیکھا۔ آپ نے فرمایا: ’’ لیکن میں نے آج رات ایک خواب دیکھا ہے۔ کہ دو آدمی میرے پاس آئے۔ انہوں نے میرے ہاتھ تھام لیے اور وہ مجھے ارض مقدس کی طرف لے گئے۔ (اور وہاں سے عالم بالا کی مجھ کو سیر کرائی۔) وہاں کیا دیکھتا ہوں کہ ایک شخص تو بیٹھا ہوا ہے اور ایک شخص کھڑا ہے اور اس کے ہاتھ میں لوہے کا آنکس تھا، جسے وہ بیٹھنے والے کے جبڑے میں ڈال کر اس کے سر کے پیچھے تک چیر دیتا تھا، پھر دوسرے جبڑے کے ساتھ بھی اسی طرح کرتا تھا، اس دوران میں اس کا پہلا جبڑا صحیح اور اپنی اصلی حالت پرآجاتا اور پھر پہلے کی طرح وہ اسے دوبارہ چیرتا۔‘‘ میں نے پوچھا کہ : ’’ یہ کیا ہورہا ہے؟‘‘ میرے ساتھ کے دونوں آدمیوں نے کہا کہ آگے چلو، چنانچہ ہم آگے بڑھے ، تو ایک ایسے شخص کے پاس آئے، جو سر کے بل لیٹا ہوا تھا اور دوسرا شخص ایک بڑا سا پتھر لیے اس کے سر پر کھڑا تھا۔ اس پتھر سے وہ لیٹے ہوئے شخص کے سر کو کچل دیتا تھا، جب وہ اس کے سر پر پتھر مارتا ، تو سر پر لگ کر وہ پتھر دور چلا جاتا اور وہ اسے جاکر اٹھالاتا، ابھی پتھر لے کر واپس بھی نہیں آتا تھا کہ سر دوبارہ درست ہوجاتا، بالکل ویسا ہی جیسا پہلے تھا۔ واپس آکر وہ پھر اسے مارتا۔میں نے پوچھا کہ: ’’ یہ کون لوگ ہیں؟ ‘‘ ان دونوں نے جواب دیا کہ ابھی اور آگے چلو۔ چنانچہ ہم آگے بڑھے تو ایک تنور جیسے گڑھے کی طرف چلے ، جس کے اوپر کا حصہ تو تنگ تھا، لیکن نیچے سے خوب فراخ۔ نیچے آگ بھڑک رہی تھی۔ جب آگ کے شعلے بھڑک کر اوپر کو اٹھتے تو اس میں جلنے والے لوگ بھی اوپر اٹھ آتے اور ایسا معلوم ہوتا کہ اب وہ باہر نکل جائیں گے، لیکن جب شعلے دب جاتے تو وہ لوگ بھی نیچے چلے جاتے ، اس تنور میں ننگے مرد اور عورتیںتھیں۔ میں نے اس موقع پر بھی پوچھا کہ : ’’ یہ کیا ہے؟‘‘ لیکن اس مرتبہ بھی جواب یہی ملا کہ ابھی اور آگے چلو۔ ہم آگے چلے۔ اب ہم خون کی ایک نہر کے اوپر تھے۔ نہر کے اندر ایک شخص کھڑا تھا اور اس کے بیچ میں ایک شخص تھا، جس کے سامنے پتھر رکھا ہوا تھا، نہر کا آدمی جب باہر نکلنا چاہتا تو پتھر والا شخص اس کے منہ پر اتنی زور سے پتھر مارتا کہ وہ اپنی پہلی جگہ پر چلا جاتا اور اسی طرح جب بھی وہ نکلنے کی کوشش کرتا ، وہ شخص اس کے منہ پر پتھر اتنی ہی زور سے پھر مارتا کہ وہ اپنی اصلی جگہ پر نہر میں چلا جاتا۔ میں نے پوچھا: ’’ یہ کیا ہورہا ہے؟ ‘‘ انہوں نے جواب دیا کہ ابھی اور آگے چلو۔ چنانچہ ہم اور آگے بڑھے اور ہرے بھرے باغ میں آئے، جس میں بہت بڑا درخت تھا، اس درخت کی جڑ میں ایک بڑی عمر والے بزرگ بیٹھے ہوئے تھے۔ درخت سے قریب ہی ایک شخص اپنے آگے آگ سلگا رہا تھا۔ میرے دونوں ساتھی مجھے لے کر اس درخت پر چڑھے اس طرح وہ مجھے ایک ایسے گھر کے اندر لے گئے کہ اس سے زیادہ حسین و خوبصورت اور بابرکت گھر میں نے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ اس گھر میں بوڑھے، جوان، عورتیں اور بچے تھے۔ میرے ساتھی مجھے اس گھر سے نکال کر ، پھر ایک اور درخت پر چڑھا کر مجھے ایک اور دوسرے گھر میں لے گئے، جو نہایت خوبصورت اور بہتر تھا، اس میں بھی بہت سے بوڑھے اور جوان تھے۔ میں نے اپنے ساتھیوں سے کہا:’’ تم لوگوں نے مجھے رات بھر سیر کرائی۔ کیا جو کچھ میںنے دیکھا اس کی تفصیل بھی کچھ بتلاؤ گے؟ انہوں نے کہا: ’’ ہاں1 وہ جو تم نے دیکھا تھا، اس آدمی کا جبڑا لوہے کے آنکس سے پھاڑا جارہا تھا، تو وہ جھوٹا آدمی تھا، جو جھوٹی باتیں بیان کیا کرتا تھا۔ اس سے وہ جھوٹی باتیں دوسرے لوگ سنتے ، اس طرح ایک جھوٹی بات دور دور تک پھیل جایا کرتی تھی، اسے قیامت تک یہی عذاب ہوتا رہے گا۔ جس شخص کو تم نے دیکھا کہ اس کا سر کچلا جارہا تھا ، تو وہ ایک ایسا انسان تھا، جسے اللہ تعالیٰ نے قرآن کا علم دیا تھا، لیکن وہ رات کو پڑا سوتا رہتا اور دن میں اس پر عمل نہیں کرتا تھا، اسے بھی یہ عذاب قیامت تک ہوتا رہے گا اورجنہیں تم نے تنور میں دیکھا تو وہ زناکار تھے۔ اور جس کو تم نے نہر میں دیکھا وہ سود خور تھا۔ اور وہ بزرگ جو درخت کی جڑ میں بیٹھے ہوئے تھے، وہ ابراہیم علیہ السلام تھے اور ان کے ارد گرد والے بچے، لوگوں کی نابالغ اولاد تھی۔(صحیح بخاری ، کتاب التعبیر میں ان لفظوں کا اضافہ ہے کہ کیا مشرکوں کی اولاد کے لیے بھی یہی حکم ہے ؟ فرمایا : ہاں1 اولاد مشرکین کے لیے بھی۔) اور جو شخص آگ جلا رہا تھا، وہ دوزخ کا داروغہ تھا اور وہ گھر جس میں تم پہلے داخل ہوئے، جنت میں عام مومنوں کا گھر تھا اور یہ گھر جس میں تم اب کھڑے ہو یہ شہداء کا گھر ہے اور میں جبریل ہوں اور یہ میرے ساتھ میکائیل ہیں۔ اب اپنا سر اٹھاؤ۔ میں نے سر اٹھایا تو کیا دیکھتا ہوں کہ میرے اوپر بادل کی طرح کوئی چیز ہے۔ میرے ساتھیوں نے کہا یہ تمہارا مکان ہے۔ میںنے کہا: پھر مجھے اپنے مکان میں جانے دو۔ انہوں نے کہا ابھی تمہاری عمر باقی ہے، جو تم نے پوری نہیں کی، اگر آپ وہ پوری کرلیتے ، تو اپنے مکان میں آجاتے۔‘‘ 1
سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ والی روایت کے یہ آخری فقرے ہیں کہ ابھی تمہاری عمر باقی ہے، جو تم نے پوری نہیں کی ، اگر آپ وہ پوری کرلیں تو اپنے مکان میں آجاتے۔ اس سے یہ ثابت ہوا کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم وفات کے بعد مدینے والی قبر میں نہیں، بلکہ جنت کے سب سے اچھے گھر میں زندہ ہیں؟ (محمد یونس شاکر، نوشرہ ورکاں)
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 صحیح بخاری ؍ کتاب الجنائز ؍ باب ماقیل فی اولاد المشرکین
سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ والی اس روایت میں رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے اپنا خواب بیان فرمایا ہے، چنانچہ صحیح
بخاری ، کتاب الجنائز ، اور کتاب التعبیرمیں آپ دیکھ سکتے ہیں، پھر اس حدیث میںلفظ ہیں: (( فَأَخْرَجَانِیْ إِلَی الْأَرْضِ الْمُقَدَّسَۃِ )) [’’ وہ دونوں مجھے ارض مقدس پر لے گئے۔‘‘ ] تو آیا جنت الفردوس ارضہ مقدسہ میں ہے؟ قرآن مجید میں ہے: { أَفَلاَ یَعْلَمُ إِذَا بُعْثِرَ مَافِی الْقُبُوْرِ } [العادیات:۹][’’ کیا اسے وہ وقت معلوم نہیں جب قبروں میں جو کچھ ہے نکال لیا جائے گا۔‘‘]، پھر فرمایا:{وَإِذَا الْقُبُوْرُ بُعْثِرَتْ } [الانفطار:۴][ ’’ اور جب قبریں اکھاڑ دی جائیں گی۔‘‘ ] نیز فرمایا: {وَنُفِخَ فِی الصُّوْرِ فَإِذَاھُمْ مِنَ الْأَجْدَاثِ إِلَی رَبِّھِمْ یَنْسِلُوْنَ }[یٰسین:۵۱][ ’’ صور کے پھونکے جاتے ہی سب کے سب اپنی قبروں سے اپنے پروردگار کی طرف (تیز تیز) چلنے لگیں گے۔‘‘ ] مشکاۃ میں بحوالہ صحیح مسلم لکھا ہے، رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: (( أَنَا سَیِّدُ وُلْدِ آدَمَ ، وَأَوَّلُ مَنْ یَنْشَقُّ عَنْہُ الْقَبْرُ )) 1 [’’ میں آدم کی اولاد کا سردار ہوں اور پہلا ہوں جس سے قبر پھٹے گی۔‘‘]ہمارا فریضہ ہے کہ ہر آیت اور ہر صحیح حدیث پر ایمان رکھیں۔ باقی احوالِ قبر و برزخ اور احوالِ آخرت و قیامت کو احوال دنیا پر قیاس کرنا درست نہیں، جیسا کہ انسان کی شکم مادر والی زندگی کو اس کی ولادت کے بعد والی دنیاوی زندگی پر قیاس کرنا صحیح نہیں۔
1 مشکوٰۃ ؍ کتاب الفضائل والشمائل ؍ باب فضائل سید المرسلین صلوات اللّٰہ وسلامہ علیہ الفصل الاول