ایصال ثواب کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ مثلاً زید بے نمازی ہے، اس کو ثواب کس طرح ملے گا اور قرآن خوانی کا ثواب پہنچانے کا طریقہ کیا ہے؟ مکمل وضاحت کریں؟ (حافظ امین اللہ محمدی)
قرآن خوانی کا ثواب میت کو پہنچانا کتاب و سنت سے ثابت نہیں۔ رہا معاملہ بے نمازی کا تو وہ کافر ہے، اہل ایمان و اسلام کا بھائی نہیں۔ اس کے اپنے اعمال حبط ہیں، دوسروں کے عمل اس کو کیونکر پہنچیں گے؟ خواہ وہ عمل ہی کیوں نہ ہوں ، جن کا میت کو پہنچنا کتاب و سنت سے ثابت ہے۔ ۲۳ ؍ ۴ ؍ ۱۴۲۴ھ
[میت کو جن اعمال کا فائدہ مرنے کے بعد ہوتا ہے، ان کی توضیح درج ذیل ہے:
دعا کے بارے میں تو سب کا اتفاق ہے کہ اگر مرنے والا کافر و مشرک نہ ہو تو اس کے لیے دعا کرنا مسنون ہے۔ اللہ وحدہٗ لاشریک لہ نے قرآن حکیم میں ارشاد فرمایا:
{وَالَّذِیْنَ جَآئُوْ مِنْ بَعْدِھِمْ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا اغْفِرْلَنَا وَلِإِخْوَانِنَا الَّذِیْنَ سَبَقُوْنَا بِالْاِیْمَانِ وَلَا
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 مستدرک حاکم ، ج:۱ ، ص:۳۵۹
تَجْعَلْ فِیْ قُلُوْبِنَا غِلاًّ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا رَبَّنَا اِنَّکَ رَئُ وْفٌ رَّحِیْمٌ صلی الله علیہ وسلم} [الحشر:۱]
’’ اور جو لوگ ان (اہل ایمان) کے بعد آئے، وہ کہتے ہیں، اے ہمارے پروردگار! ہمیں بخش دے اور ہمارے ان بھائیوں کو جو ایمان کے ساتھ ہم سے پہلے گزر گئے اور ہمارے دلوں میں ایمان والوں کے لیے کینہ نہ بنا۔ اے ہمارے پروردگار! بلاشبہ تو مشفق مہربان ہے۔‘‘
اسی طرح حدیث میں آتا ہے جب نجاشی فوت ہوا ، تو نبی صلی الله علیہ وسلم نے اس کی اطلاع دی، تو فرمایا:
(( اِسْتَغْفِرُوْا لِأَخِیْکُمْ ))]1
’’ اپنے بھائی کے لیے استغفار کرو۔‘‘
(( عَنْ عَائِشَۃَ رضی اللہ عنہما: أَنَّ النَّبِیَّ صلی الله علیہ وسلم کَانَ یَخْرُجُ اِلَی الْبَقِیْعِ فَیَدْعُوْا لَھُمْ فَسَأَلَتْہُ عَائِشَۃُ عَنْ ذٰلِکَ فَقَالَ إِنِّیْ اُمِرْتُ اَنْ اَدْعُوَلَھُمْ ))2
’’ عائشہ رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم البقیع کی طرف نکلاکرتے اور ان کے لیے دعا کرتے تھے۔ عائشہ رضی اللہ عنہما نے آپ صلی الله علیہ وسلم سے اس کے بارے میں پوچھا تو آپؐ نے فرمایا: مجھے ان کے لیے دعا کا حکم دیا گیا ہے۔‘‘
اسی طرح مسند أحمد ۶ ؍ ۹۲ ، ۲۲۱ مؤطا کتاب الجنائز باب جامع الجنائز ۱؍۲۰۸ ، نسائی کتاب الجنائز باب الامر بالاستغفار للمؤمنین (۷؍۲۰۳ ـ ۲۰۳۶) مسلم کتاب الجنائز باب مایقول عند دخول القبور والدعاء لاھلھا (۱۰۳ ـ ۹۷۴) عبدالرزاق ۳؍۵۷۰ ـ ۵۷۶ وغیرہ میں مفصل طور پر نبی صلی الله علیہ وسلم کا قبرستان میں جاکر ہاتھ اٹھاکر ان کے لیے دعا کرنا منقول ہے۔
علاوہ ازیں قبرستان میں جاکر زیارت قبور کی احادیث اور نماز جنازہ میں دعائیں وغیرہ اس بات کی بین دلیل ہیں کہ مسلمانوں کی دعائیں مسلمان میت کے لیے مفید ثابت ہوسکتی ہیں۔
کافر اور مشرک میت کے لیے دعا کی اجازت نہیں ہے ۔ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
{مَا کَانَ لِلنَّبِیِّ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اَنْ یَّسْتَغْفِرُوْا لِلْمُشْرِکِیْنَ وَلَوْ کَانُوْا اُولِیْ قُرْبٰی مِنْ بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَھُمْ اَنَّھُمْ اَصْحَابُ الْجََحِیْمِ I} [التوبۃ:۱۱۳]
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1بخاری ؍ کتاب الجنائز ؍ باب الصلاۃ علی الجنائز بالمصلی والمسجد (۱۳۲۷) نسائی (۲۰۴۱)
2 مسند احمد:۶؍۲۵۲
’’ نبی صلی الله علیہ وسلم اور ایمان والوں کو جائز نہیں کہ مشرکین کے لیے مغفرت کی دعا مانگیں، اگرچہ وہ رشتہ دار ہی ہوں اس امر کے ظاہر ہوجانے کے بعد کہ یہ لوگ دوزخی ہیں۔‘‘
مندرجہ بالا سے معلوم ہوا کہ مسلمان میت کے لیے بخشش کی دعا کی جاسکتی ہے۔ کافر و مشرک کے لیے دعا کی اجازت نہیں۔
یعنی مسلمان اپنی زندگی میں ایسا کام کرجائے جس کا ثواب و فائدہ اسے مرنے کے بعد بھی برابر ملتا رہے، اور اس کے جاری کردہ کام سے بعد میں لوگ بھی فائدہ اٹھاتے رہتے ہیں۔ اس کے بارے میں بہت سی احادیث ہیں۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
{ اِنَّا نَحْنُ نُحْیِ الْمَوْتٰی وَنَکْتُبُ مَا قَدَّمُوْا وَاٰثَارَھُمْ وَکُلَّ شَیْئٍ اَحْصَیْنَاہُ فِیْ اِمَامٍ مُّبِیْنٍ J} [یٰسین:۱۲]
’’ بلاشبہ ہم مردوں کو زندہ کریں گے اور ہم لکھتے جاتے ہیں۔ وہ اعمال بھی جن کو لوگ آگے بھیجتے ہیں اور ان کے وہ اعمال بھی جن کو پیچھے چھوڑ جاتے ہیں اور ہم نے ہر چیز کو ایک واضح کتاب میں ضبط کررکھا ہے۔‘‘
اس آیت کریمہ میں{مَا قَدَّمُوْا}سے مراد وہ اعمال ہیں جو انسان خود اپنی زندگی میں کرتا ہے اور {آثَارَھُمْ}سے مراد وہ اعمال ہیں جن کے عملی نمونے وہ دنیا میں چھوڑ جاتا ہے اور اس کے مرنے کے بعد لوگ اس کی اقتداء میں بجا لاتے ہیں۔ ایسے صدقات و اعمال کا تذکرہ کتب حدیث میں موجود ہے، جیسا کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ، رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:
(( اِذَا مَاتَ الْاِنْسَانُ اِنْقَطَعَ عَنْہُ عَمَلَُہٗ اِلاَّ مِنْ ثَلاَثَۃٍ اِلاَّ مِنْ صَدَقَۃٍ جَارِیَۃٍ اَوْ عِلْمٍ یُنْتَفَعُ بِہٖ اَوْ وَلَدٍ صَالِحٍ یَدْعُوْ لَہٗ ))1
’’ جب آدمی مرجاتا ہے تو اس کا عمل اس سے منقطع ہوجاتا ہے، مگر تین چیزیں ہیں (جن کا فائدہ اسے مرنے کے بعد ہوتا رہتا ہے۔ )(۱)صدقہ جاریہ۔ (۲) علم جس سے نفع حاصل کیا جاتا ہے۔ (۳) نیک اولاد جو اس کے لیے دعا کرتی ہے۔‘‘
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 مسلم ؍ کتاب الوصیۃ ؍ باب مایلحق الانسان من الثواب بعد وفاتہ ، ترمذی ؍ کتاب الاحکام ؍ باب فی الوقف، ابو داؤد کتاب الوصایا ؍ باب ماجاء فی الصدقۃ عن المیت ، نسائی ؍ کتاب الوصایا ؍ باب فضل الصدقۃ علی المیت
امام نووی فرماتے ہیں:
(( قَالَ الْعُلَمَائُ: مَعْنَی الْحَدِیْثِ ، أَنَّ عَمَلَ الْمَیِّتِ یَنْقَطِعُ بِمَوْتِہٖ وَیَنْقَطِعُ تَجَدُّدُ الثَّوَابِ لَہٗ إِلاَّ فِیْ ھٰذِہِ الْأَشْیَائِ الثَّلاَثَۃِ لِکَوْنِہٖ کَانَ سَبَبُھَا فَاِنَّ الْوَلَدَ مِنْ کَسَبِہٖ وَکَذٰلِکَ الْعِلْمُ الَّذِیْ خَلَفَہٗ مِنْ تَعْلِیْمٍ أَوْ تَصْنِیْفٍ وَکَذٰلِکَ الصَّدَقَۃُ الْجَارِیَۃُ وَھِیَ الْوَقْفُ ))1
’’ علماء نے کہا ہے حدیث کا معنی یہ ہے کہ میت کا عمل اس کی موت کے ساتھ منقطع ہوجاتا ہے اور اس کے لیے ثواب کا نیا ہونا بھی منقطع ہوجاتاہے، مگر ان تین اشیاء میں اس لیے کہ میت ان امور کی سبب تھی۔ اولاد اس کی کمائی ہے۔ اسی طرح علم جو اس نے پیچھے چھوڑا ، خواہ وہ کسی کو تعلیم دے کر گیا یا کوئی عملی تصنیف چھوڑ گیا۔ اسی طرح صدقہ جاریہ بھی اس کا کسب ہے اور یہ وقف ہے۔‘‘
(( خَیْرُ مَا یُخَلِّفُ الرَّجُلُ مِنْ بَعْدِہٖ ثَلاَثٌ: وَلَدٌ صَالِحٌ یَدْعُوْ لَہٗ وَصَدَقَۃٌ تَجْرِیْ یَبْلُغُہٗ اَجْرُھَا اَوْ عِلْمٌ یُعْمَلُ بِہٖ مِنْ بَعْدِہٖ ))2
’’ آدمی اپنے بعد سب سے بہترین تین چیزیں چھوڑ کر جاتا ہے۔ (۱) نیک اولاد جو اس کے لیے دعا کرتی ہے۔ (۲) صدقہ جاریہ، اس کا اجر اسے (مرنے کے بعد) پہنچتا ہے۔ (۳) اور علم جس پر اس کے بعد عمل کیا جاتا ہے۔‘‘
(( عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صلی الله علیہ وسلم اِنَّ مِمَّا یَلْحَقُ الْمُؤْمِنَ مِنْ عَمَلِہٖ وَحَسَنَاتِہٖ بَعْدَ مَوْتِہٖ عِلْمًا عَلَّمَہٗ وَنَشَرَہٗ ، وَوَلَدًا صَالِحًا تَرَکَہٗ ، وَمُصْحَفًا وَرَّثَہٗ ، اَوْ مَسْجِدًا بَنَاہُ اَوْ بَیْتًا لاِبْنِ السَّبِیْلِ بَنَاہُ اَوْ نَھْرًا اَجْرَاہُ ، أَوْ صَدَقَۃً اَخْرَجَھَا مِنْ مَالِہٖ فِیْ صِحَّتِہٖ وَحَیَاتِہٖ یَلْحَقُہٗ مِنْ بَعْدِ مَوْتِہٖ ))3
’’ بلاشبہ مومن آدمی کو اس کے عمل اور نیکیوں سے اس کی موت کے بعد جو ملتا ہے اس میں سے (۱) ایسا علم جس کی اس نے تعلیم دی اور اسے نشر کیا۔ (۲) اور نیک اولاد، جو اس نے چھوڑی۔ (۳) اور مصحف (قران) جو اس نے ورثاء کے لیے چھوڑا۔ (۴) یا جو اس نے مسجد تعمیر کی۔ (۵) یا مسافر خانہ تعمیر کیا۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 شرح مسلم للنویؒ: ۱۱؍۷۲ 2 ابن ماجہ ؍ کتاب المقدمۃ ؍ باب ثواب معلم الناس الخیر
3 ابن ماجہ المقدمۃ ؍ باب ثواب معلم الناس الخیر
(۶) یا نہر جاری کی۔ (۷) یا اپنی زندگی اور تندرستی میں اپنے مال سے صدقہ نکالا اسے مرنے کے بعد ان کا اجر ملتا رہے گا۔‘‘
(( عَنْ سَلْمَانَ قَالَ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی الله علیہ وسلم یَقُوْلُ: رِبَاطُ یَوْمٍ وَلَیْلَۃٍ خَیْرٌ مِنْ صِیَامِ شَھْرٍ وَقِیَامِہٖ وَإِنْ مَاتَ جَرٰی عَلَیْہِ عَمَلُہُ الَّذِیْ کَانَ یَعْمَلُہٗ وَاُجْرِیَ عَلَیْہِ رِزْقُہٗ وَاَمِنَ الْفَتَّانَ ))1
’’ سلمان فارسی رضی اللہ عنہ نے کہا میںنے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کو کہتے ہوئے سنا: اللہ کی راہ میں ایک دن اور ایک رات سرحدوں کا پہرہ دینا، ایک مہینے کے روزوں اور قیام سے بہتر ہے اور اگر وہ مرگیا، اس کا وہ عمل اس پر جاری رہے گا، جو وہ کرتا رہا۔ اور اس پر اس کا رزق و بدلہ جاری کردیا جائے گا اور وہ فتنے سے محفوظ ہوگا۔‘‘
(( عَنْ فَضَالَۃَ بْنِ عُبَیْدٍ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی الله علیہ وسلم قَالَ: کُلُّ الْمَیِّتِ یُخْتَمُ عَلٰی عَمَلِہٖ اِلاَّ الْمُرَابِطُ فَاِنَّہٗ یَنْمُوْلَہٗ عَمَلُہٗ اِلٰی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ وَیُؤْمَنُ مِنْ فَـتَّانِ الْقَبْرِ ))2
’’ فضالہ بن عبید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ ہر میت کا خاتمہ اس کے عمل پر ہوجاتا ہے، مگر اللہ کی راہ میں پہرہ دینے والا اس کا عمل قیامت تک بڑھتا رہتا ہے اور وہ قبر کے فتنوں سے بچالیا جاتا ہے۔‘‘
مذکورہ بالا احادیث سے معلوم ہوا کہ میت کو ان تمام اعمال صالحہ کا ثواب و فائدہ پہنچتا ہے، جن کو وہ اپنی زندگی میں سرانجام دے گیا اور وہ صدقہ جاریہ کے طور پر باقی رہے، جن میں علم سکھانا، نیک بچے کی دعا، قرآنِ مجید چھوڑ جانا، مسجد بنوانا، مسافر خانہ تعمیر کروانا، نہرو کنواں جاری کرجانا، کوئی صدقہ جو اس نے صحت و حیات میں کیا ہو، جہاد میں پہرہ دیتے ہوئے فوت ہوجانا، مردہ سنت جاری کرنا، درخت وغیرہ لگاجانا وغیرھا۔ یہ تمام امور اس کے اپنے اعمالِ صالحہ ہیں، یہ بھی یاد رہے کہ ولد صالح بھی آدمی کی نیک کمائی میں داخل ہے۔ جیسا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:
(( اِنَّ أَطْیَبَ مَا أَکَلَ الرَّجُلُ مِنْ کَسَبِہٖ وَإِنَّ وَلَدَ الرَّجُلِ مِنْ کَسَبِہٖ ))3
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 مسلم ؍ کتاب الامارۃ باب فضل الرباط فی سبیل اللّٰہ عزوجل ، نسائی ؍ کتاب الجہاد باب فضل الرباط
2 ابو داؤد ؍ کتاب الجہاد ؍ باب فی فضل الرباط ، ترمذی ؍ کتاب فضائل الجہاد
3 نسائی ؍ کتاب البیوع ؍ باب الحث علی الکسب ، ابو داؤد ؍ کتاب الاجارۃ ؍ باب الرجل یاکل من مال ولدہ ، ترمذی ؍ کتاب الاحکام ، ابن ماجہ ؍ کتاب التجارات باب ما للرجل من مال ولدہ
’’ بلاشبہ آدمی جو اپنے ہاتھ کی کمائی سے کھاتا ہے، وہ سب سے پاکیزہ ہے اور بلاشبہ آدمی کی اولاد اس کی کمائی سے ہے۔‘‘
اور ابوداؤد کتاب الاجارۃ ، ابن ماجہ ، کتاب التجارات میں بسند حسن عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہ سے اس طرح بھی مروی ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:
(( إِنَّ اَوْلاَدَکُمْ مِنْ أَطْیَبِ کَسَبِکُمْ فَکُلُوْا مِنْ کَسَبِ اَوْلاَدِکُمْ ))
’’ بے شک تمہاری اولاد تمہاری سب سے پاکیزہ کمائی میں سے ہے، سو تم اپنی اولاد کی کمائی میں سے کھاؤ۔‘‘
معلوم ہوا کہ اولاد آدمی کی اپنی کمائی ہے، لہٰذا اولاد جو نیک عمل کرے گی، والدین کو اس میں سے اجر ملے گا۔
اس کے دلائل درج ذیل ہے:
1 عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:
(( مَنْ مَاتَ وَعَلَیْہِ صِیَامٌ صَامَ عَنْہُ وَلِیُّہٗ ))1
’’ جو آدمی مرجائے اور اس کے ذمے روزے ہوں ، تو اس کی جانب سے اس کا ولی روزہ رکھے۔‘‘
2 عبداللہ بن عباس رضی الله عنہ روایت کرتے ہیں کہ:
(( جَآئَ تِ امْرَأَۃٌ اِلٰی رَسُولِ اللّٰہِ صلی الله علیہ وسلم فَقَالَتْ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ إِنَّ اُمِّیْ مَاتَتْ وَعَلَیْھَا صَوْمُ نَذْرٍ أَفَاَصُوْمُ عَنْھَا؟ قَالَ: أَرَاَیْتِ لَوْ کَانَ عَلٰی اُمِّکِ دَیْنٌ فَقَضَیْتِہٖ أَکَانَ یُؤَدّٰی ذٰلِکَ عَنْھَا؟ قَالَتْ: نَعَم۔ قَالَ: فَصُوْمِیْ عَنْ أُمِّکِ )) 1
’’ ایک عورت نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کے پاس آئی، اس نے کہا: اے اللہ کے رسول صلی الله علیہ وسلم میری ماں فوت ہوگئی ہے،اور اس کے ذمے نذر کے روزے ہیں۔ کیا میں اس کی طرف سے روزے رکھوں۔ آپؐ نے فرمایا: ’’مجھے بتاؤ اگر تیری ماں پر قرض ہوتا، تو تو اسے ادا کرتی۔ کیا وہ قرض اس کی طرف سے ادا کیا جائے گا؟ اس نے کہا: ہاں۔ آپؐ نے فرمایا: تو اپنی ماں کی جانب سے روزے رکھ۔‘‘
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 بخاری ؍ کتاب الصوم ؍ باب من مات وعلیہ صوم ، مسلم ؍ کتاب الصیام ؍ باب قضاء الصیام عن المیت ، ابو داوٗد ؍ کتاب الصیام ؍ باب فیمن مات وعلیہ صیام
2 مسلم ؍ کتاب الصیام ؍ باب قضاء الصیام عن المیت ، بخاری ؍ کتاب الصوم ؍ باب من مات وعلیہ صوم
3 عبداللہ بن عباس رضی الله عنہ سے مروی ہے:
(( أَنَّ امْرَأَۃً رَکِبَتِ الْبَحْرَ فَنَذَرَتْ اِنْ نَجَّاھَا اللّٰہُ اَنْ تَصُوْمَ شَھْرًا فَنَجَّاھَا اللّٰہُ فَلَمْ تَصُمْ حَتّٰی مَاتَتْ فَجَائَ تْ اِبْنُتَھَا اَوْ اُخْتُھَا اِلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی الله علیہ وسلم فَأَمَرَھَا أَنْ تَصُوْمَ عَنْھَا )) 1
’’ ایک عورت سمندر میں سوار ہوئی ، تو اس نے نذر مانی، اگر اللہ تعالیٰ اسے نجات دے گا، تو وہ ایک ماہ کے روزے رکھے گی، سو اللہ تعالیٰ نے اسے نجات دی۔ اس نے روزے نہ رکھے، یہاں تک کہ وہ فوت ہوگئی۔ اس کی بیٹی یا بہن نبی صلی الله علیہ وسلم کے پاس آئی۔ آپؐ نے اسے حکم دیا کہ وہ اس کی طرف سے روزے رکھے۔‘‘
4 عبداللہ بن عباس رضی الله عنہ سے مروی ہے:
(( أَنَّ سَعْدَ بْنَ عُبَادَۃَ رضی اللہ عنہ اِسْتَفْتٰی رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی الله علیہ وسلم فَقَالَ: اِنَّ أُمِّیْ مَاتَتْ وَعَلَیْھَا نَذْرٌ فَقَالَ اقْضِہٖ عَنْھَا )) 2
’’ سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم سے پوچھا: میری والدہ فوت ہوگئی ہیں، ان کے ذمے نذر ہے۔ آپؐ نے فرمایا: ’’اس کی طرف سے نذر کو پورا کر۔‘‘
مندرجہ بالا احادیث صراحت سے اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ میت کی طرف سے اس کا ولی نذر کا روزہ رکھ سکتا ہے، عائشہ رضی اللہ عنہما کی روایت سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ میت کی جانب سے ولی فرض روزہ بھی رکھ سکتا ہے۔
میت کی طرف سے قرض کی ادائیگی خواہ ولی کرے یا کوئی اور شخص۔ جب قرض کی ادائیگی ہوجائے گی، تو میت کو اس کا نفع بھی ملتا ہے۔ جابر بن عبداللہ رضی الله عنہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی فوت ہوگیا۔ ہم نے اسے غسل دے کر کفن پہنایا۔ خوشبو لگائی اور جنازہ گاہ میں رکھا۔ پھر رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کو نماز جنازہ کی اطلاع دی۔ آپؐ تشریف لائے فرمایا: ’’شاید تمہارے ساتھی کے ذمے قرض کی ادائیگی ہے؟‘‘ صحابہ رضوان اللہ علیھم اجمعین نے کہا: ہاں دو دینار اس پر قرض ہے۔ آپؐ پیچھے ہٹ گئے اور فرمایا: ’’اپنے ساتھی پر تم جنازہ پڑھو۔‘‘ ابوقتادۃ نے کہا: اے اللہ کے رسول صلی الله علیہ وسلم 1میں
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 مسلم ؍ کتاب الصیام ؍ باب قضاء الصیام عن المیت ، بخاری ؍ کتاب الصوم ؍ باب من مات وعلیہ صوم
2بخاری ؍ کتاب الوصایا، مسلم ؍ کتاب النذر عن المیت ، ترمذی ، کتاب النذور والایمان باب ماجاء فی قضاء النذور عن المیت ، نسائی ؍ کتاب الوصایا ، ابن ماجہ؍ کتاب الکفارات
اس کی ادائیگی کردوں گا۔ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم فرمانے لگے وہ دو دینار تجھ پر تیرے مال سے ادا کرنا لازم ہے اور میت ان سے بری ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ابو قتادہ رضی اللہ عنہ سے ملتے تو کہتے ’’تم نے دو دیناروں کا کیا کیا؟‘‘ انہوں نے کہا: یا رسول اللہ وہ تو ابھی توکل فوت ہوا ہے۔ پھر آپؐ دوبارہ ملے تو یہی بات پوچھی تو ابوقتادہ رضی اللہ عنہ نے کہا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم 1 میں نے وہ قرض ادا کردیا ہے۔ پھر آپؐ نے فرمایا: ’’اب قرض کی ادائیگی سے اس پر سے سختی اٹھ گئی۔ 1
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ میت کی جانب سے قرض کی ادائیگی کوئی شخص بھی کرسکتا ہے، جب قرض کی ادائیگی ہو تو میت کو نفع ملتا ہے۔ اس معنی کی کئی ایک احادیث اور بھی موجود ہیں۔
1 عائشہ رضی الله عنہ سے مروی ہے:
(( اِنَّ رَجُلاً قَالَ لِلنَّبِیِّ صلی الله علیہ وسلم اِنَّ أُمِّی افْتُلِتَتْ نَفْسُھَا وَأُرَاھَا لَوْ تَکَلَّمَتْ تَصَدَّقَتْ أَفَاَتَصَدَّقُ عَنْھَا؟ قَالَ نَعَمْ تَصَدَّقْ عَنْھَا )) 2
’’ ایک آدمی نے نبی صلی الله علیہ وسلم سے کہا میری ماں فوت ہو گئی ہے۔ میرا خیال ہے اگر مرتے وقت وہ بات کر سکتی تو صدقہ کرتی۔ کیا میں اس کی طرف سے صدقہ کروںـ؟ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا : ہاںتو اس کی طرف سے صدقہ کر۔‘‘
2 ابن عباس رضی الله عنہ سے مروی ہے:
(( إِنَّ رَجُلاً قَالَ لِرَسُوْلِ اللّٰہِ صلی الله علیہ وسلم إِنَّ اُمَّہٗ تُوُفِّیَتْ أَیَنْفَعُھَا اِنْ تَصَدَّقْتُ عَنْھا؟ قَالَ نَعَمْ قَالَ: فَاِنَّ لِیْ مِخْرَافًا فَاَنَا اُشْھِدُکَ أَنِّیْ قَدْ تَصَدَّقْتُ بِہٖ عَنْھَا )) 3
’’ ایک آدمی نے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم سے کہا کہ اس کی ماں فوت ہوگئی ہے ، اگر میں اس کی طرف سے
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1مستدرک حاکم :۲؍۵۸ ، مسند احمد :۳؍۳۳۰ مجمع الزوائد:۳؍۳۹
2 بخاری ؍ کتاب الوصایا ؍ باب ما یستحب لمن توفی فجاۃ ان یتصدقوا عنہ وقضاء النذور عن المیت ، ابو داؤد ؍ کتاب الوصایا ، مسلم کتاب الزکاۃ ؍ باب وصول ثواب الصدقۃ عن المیت الیہ ، نسائی ؍ کتاب الوصایا ؍ باب اذا مات الفجاۃ ھل یستحب لاہلہ ان یتصدقوا عنہ ، ابن ماجہ ؍ کتاب الوصایا
3 بخاری ؍ کتاب الوصایا ، ابو داوٗد ؍ کتاب الوصایا ، ترمذی ؍ کتاب الزکاۃ ؍ باب ماجاء فی الصدقۃ عن المیت ، نسائی ؍ کتاب الوصایا ؍ باب فضل الصدقۃ عن المیت
صدقہ کروں ، کیا اسے نفع ہوگا؟ آپؐ نے فرمایا: ’’ہاں۔‘‘ تو اس آدمی نے کہا میرا ایک پھل دار باغ ہے ، میں آپؐ کو گواہ بناکر کہتا ہوں میں نے وہ باغ اس کی طرف سے صدقہ کردیا۔‘‘
بخاری (۲۷۵۶ ، ۲۷۶۲) میں صراحت ہے کہ وہ آدمی سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ تھے۔ وہ اپنی ماں کی وفات کے وقت غائب تھے، پھر انہوں نے یہ سوال رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم سے پوچھا۔
3 حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:
(( إِنَّ رَجُلاً قَالَ لِلنَّبِیِّ صلی الله علیہ وسلم: إِنَّ اَبِیْ مَاتَ وَتَرَکَ مَالاً وَلَمْ یُوْصِ وَھَلْ یُکَفَّرُ عَنْہُ أَنْ اَتَصَدَّقَ عَنْہُ؟ قَالَ: نَعَمْ۔ ))1
’’ ایک آدمی نے نبی صلی الله علیہ وسلم سے کہا میرا باپ فوت ہوگیا ہے اور اس نے ترکے میں مال چھوڑا ہے، اور وصیت نہیں کی ۔ میرا مال اس کی طرف سے صدقہ کرنا ، کیا اس کے لیے کفارہ بنے گا؟ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں۔ ‘‘
4 عبداللہ بن عمر رضی الله عنہ سے مروی ہے، عاص بن وائل نے وصیت کی کہ اس کی طرف سے ۱۰۰ غلام آزاد کیے جائیں، اس کے بیٹے ہشام نے ۵۰ غلام اس کی طرف سے آزاد کردیئے۔ اس کے بیٹے عمرو نے ارادہ کیا کہ باقی ۵۰ غلام وہ آزاد کردے۔ وہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہا اے اللہ کے رسول صلی الله علیہ وسلم1 میرے باپ نے ۱۰۰ غلام آزاد کرنے کی وصیت کی تھی، جن میں سے ۵۰ غلام ہشام نے آزاد کردیئے ہیں، جبکہ ۵۰ غلام آزاد کرنے باقی ہیں۔کیا میں اس کی طرف سے آزاد کردوں؟ تو نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:
(( إِنَّہٗ لَوْ کَانَ مُسْلِمًا فَاعْتَقْتُمْ عَنْہُ اَوْ تَصَدَّقْتُمْ عَنْہُ اَوْ حَجَجْتُمْ عَنْہُ بَلَغَہٗ ذٰلِکَ ))2
’’ اگر وہ مسلمان ہوتا ، تو تم اس کی طرف سے غلام آزاد کرتے یا صدقہ کرتے یا حج کرتے، تو اس کا اجر اسے پہنچتا۔‘‘
ان احادیث سے معلوم ہوا کہ اولاد والدین کی طرف سے اگر صدقہ کریں۔ غلام آزاد کریں تو انہیں نفع ہوتا ہے، بشرطیکہ والدین نے توحید کا اقرار کیا ہو۔ مشرک والدین کو فائدہ نہیں ہوتا۔ نیک اولاد والدین کی کمائی ہے، جیسا کہ اوپر گزر چکا ہے۔ اولاد کے علاوہ دیگر افراد کا میت کی طرف سے صدقہ کرنا محتاج دلیل ہے۔
قاضی شوکانی l فرماتے ہیں:
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 نسائی ؍ کتاب الوصایا ، مسلم ؍ کتاب الوصیۃ ؍ باب وصول ثواب الصدقات الی المیت ، ابن ماجہ ؍ کتاب الوصایا
2 ابو داؤد ؍ کتاب الوصایا
(( وَأَحَادِیْثُ الْبَابِ تَدُلُّ عَلٰی أَنَّ الصَّدَقَۃَ مِنَ الْوَلَدِ تَلْحَقُ الْوَالِدَیْنِ بَعْدَ مَوْتِھِمَا بِدُوْنِ وَصِیَّۃٍ مِنْھُمَا وَیَصِلُ إِلَیْھِمَا ثَوَابُھَا فَیُخَصَّصُ بِھٰذِہِ الْاَحَادِیْثِ عَمُوْمُ قَوْلِہٖ تَعَالٰی:{ وَأَنْ لَّیْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلاَّ مَا سَعٰی} وَلٰکِنْ لَیْسَ فِیْ أَحَادِیْثِ الْبَابِ اِلاَّ لُحُوْقُ الصَّدَقَۃِ مِنَ الْوَلَدِ وَقَدْ ثَبَتَ اَنَّ وَلَدَ الْاِنْسَانِ مِنْ سَعْیِہٖ فَلاَ حَاجَۃَ إِلٰی دَعْوَی التَّخْصِیْصِ وَاَمَّا مِنْ غَیْرِ الْوَلَدِ فَالظَّاھِرُ مِنَ الْعُمُوْمَاتِ الْقُرْآنِیَۃِ اَنَّہٗ لاَ یَصِلُ ثَوَابُہٗ اِلَی الْمَیِّتِ فَیُوْقَفُ عَلَیْھَا حَتّٰی یَأْتِیَ دَلِیْلٌ یَقْتَضِیْ تَخْصِیصَھَا ))1
’’ اس باب کی احادیث اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ اولاد کی طرف سے صدقہ والدین کی وصیت کے بغیر ان کی وفات کے بعد انہیں ملتاہے اور اس کا ثواب انہیں پہنچتا ہے۔ ان احادیث کے ذریعے اللہ تعالیٰ کے فرمان (نہیں ہے، انسان کے لیے ، مگر وہی جو اس نے کوشش کی) کے عموم کی تخصیص کی جاتی ہے، لیکن باب کی احادیث میں صرف اولاد کے صدقے کا ذکر ہے، اور یہ بات ثابت ہے کہ انسان کی اولاد اس کی سعی و کوشش سے ہے، لہٰذا تخصیص کے دعوے کی حاجت نہیں۔ بہر کیف اولاد کے علاوہ دیگر افراد قرآنی عمومات میں شامل ہیں، ان کا ثواب میت کو نہیں پہنچتا۔ اس پر توقف کیا جائے گا، یہاں تک کہ ایسی دلیل مل جائے ، جو تخصیص کا تقاضا کرے۔‘‘
معلوم ہوا کہ اولاد کے علاوہ دیگر افراد کا میت کی طرف سے صدقہ کرنا بے دلیل ہے۔
میت کی طرف سے حج کرنے کی ایک دلیل تو عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہ کی حدیث ہے، جو کہ ابوداؤد اور بیہقی کے حوالے سے گزرچکی ہے، دوسری دلیل یہ ہے۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی الله عنہ روایت کرتے ہیں:
(( إِنَّ امْرَأَۃً مِنْ جُھَیْنَۃَ جَائَ تْ اِلَی النَّبِیِّ صلی الله علیہ وسلم فَقَالَتْ: إِنَّ اُمِّی نَذَرَتْ اَنْ تَحُجَّ فَلَمْ تَحُجَّ حَتّٰی مَاتَتْ أَفَاَحُجُّ عَنْھَا؟ قَالَ نَعَمْ حُجِّیْ عَنْھَا اَرَاَیْتِ لَوْکَانَ عَلٰی اُمِّکِ دَیْنٌ أَکُنْتِ قَاضِیَتَہٗ؟ اِقْضُو اللّٰہَ فَاللّٰہُ اَحَقُّ بِالْوَفَائِ )) 2
’’ جہینہ قبیلے کی ایک عورت نبی صلی الله علیہ وسلم کے پاس آئی۔ اس نے کہا: میری ماں نے حج کرنے کی نذر مانی
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 نیل الاوطار ۴؍۱۰۵ تحت باب وصل ثواب القرب المہداۃ الی الموتیٰ
2 بخاری ؍ کتاب جزاء الصید ؍ باب الحج والنذر عن المیت ، نسائی ؍ کتاب المناسک
تھی، اس نے حج نہ کیا یہاں تک کہ فوت ہوگئی۔ کیا میں اس کی طرف سے حج کروں؟ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں تو اس کی طرف سے حج کر۔ بتاؤ کیا تیری ماں پر قرض ہوتا تو تم ادا کرتی؟ اللہ کا حق ادا کرو۔ اللہ وفا کا زیادہ حقدار ہے۔‘‘
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ میت کی طرف سے حج اگر کیا جائے، تو اسے نفع ہوتاہے۔ مذکورہ بالا اعمال کے علاوہ قل ، تیجے، ساتویں، چالیسویں، قرآن خوانی وغیرہ ایسے امور ہیں، جن کا ذکر کسی بھی حدیث صحیح میں موجود نہیں، بلکہ یہ صرف اور صرف رسوم ہیں۔ شرع سے ان کا کوئی تعلق نہیں۔ امام العز بن عبدالسلام l نے اپنے فتاویٰ میں فرمایا:
(( وَمَنْ فَعَلَ طَاعَۃً لِلّٰہِ تَعَالٰی تُمَّ أَھْدٰی ثَوَابَھَا اِلٰی حَیٍّ اَوْ مَیِّتٍ لَمْ یَنْتَقِلْ ثَوَابُھَا إِلَیْہِ إذْ { لَیْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلاَّ مَاسَعٰی} فَاِنْ شَرَعَ فِی الطَّاعَۃِ نَاوِیًا اَنْ یَّقَعَ عَنِ الْمَیِّتِ لَمْ یَقَعْ عَنْہُ إِلاَّ فِیْمَا اسْتَثْنَاہُ الشَّرْعُ کَالصَّدَقَۃِ وَالصَّوْمِ وَالْحَجِّ ))1
’’ جس شخص نے اللہ تعالیٰ کی اطاعت کا کوئی کام کیا، پھر اس کا ثواب کسی زندہ یا مردہ کو بخشا تو اللہ کی اطاعت کا ثواب اسے نہیں پہنچے گا، کیونکہ قرآن میں ہے: (انسان کے لیے صرف وہی ہے جس کی اس نے کوشش کی) اگر کسی اطاعت کی ابتداء اس نیت سے کی کہ اس کا ثواب فلاں میت کو مل جائے تو یہ میت کی طرف سے واقع نہیں ہوگی۔ ہاں وہ چیزیں میت کی طرف سے واقع ہوں گی، جنہیں شریعت نے مستثنیٰ قرار دیا ہے، جیسے صدقہ ، روزہ اور حج۔‘‘
مذکورہ بالا احادیث ِصحیحہ اور ائمہ محدثین کی توضیحات سے معلوم ہوا کہ میت کو صرف انہی اعمال کا فائدہ ہوتا ہے جن کا بالتفصیل اوپر ذکر کردیا گیاہے۔ اس کے علاوہ تیجہ، ساتواں، چالیسواں، گیارھویںشریف، قرآن خوانی جیسے امور کا کسی صحیح حدیث میں تذکرہ نہیں ہے۔ یہ ہنود کی رسوم ہیں۔ تفصیل کے لیے مولانا عبیداللہ سندھی مرحوم کی کتاب ’’ تحفۃ الہند ‘‘ کا مطالعہ کریں۔