سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(453) ریلوے اسٹیشن پر حادثہ پیش آیا..الخ

  • 4821
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-17
  • مشاہدات : 1166

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میرے بڑے بیٹے مسمّی محمد داؤد کو مؤرخہ 10/4/2000 بروز سوموار ، ریلوے اسٹیشن پر حادثہ پیش آیا۔ اور اس کی دونوں ٹانگیں کٹ گئیں۔ اور اسی دن مؤرخہ 10/4/2000 کو بوقت :30:4 بجے اس کا ریلوے ہسپتال میں انتقال ہوگیا۔ آپ سے التماس ہے کہ میرے بیٹے محمد داؤد مرحوم کی مغفرت کے لیے دعا فرمائیں۔ نیز یہ بھی دعا ضرور فرمائیں کہ اللہ تبارک وتعالیٰ اسے جنت الفردوس عطا فرمائے۔ اور پسماندگان اور لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائے۔ آمین۔

          میرے پڑھنے کے لیے (وظیفہ) ورد تحریر کریں ، جو میں باوضو یا بے وضو پڑھ سکوں، جس سے سکونِ قلبی حاصل ہو۔                       (محمد یحییٰ عفی عنہ وزیر آبادی، ریٹائرڈ آفس سپرنٹنڈنٹ کوئٹہ)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

آپ کا مکتوب گرامی موصول ہوا،بہت افسوس ہوا کہ جناب کا لخت جگر اللہ تعالیٰ کو پیارا ہوگیا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ اس جانکاہ صدمہ پر آپ کو، آپ کے خویش و اقارب کو صبر جمیل سے نوازے کہ صبر جمیل ہی میں اجر جزیل ہے۔ اللہ عزوجل کا فرمان ہے: { یٰٓأَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَالصَّلوٰۃِ إِنَّ اللّٰہَ مَعَ الصَّابِرِیْنَ }[البقرۃ:۱۵۳][’’ اے ایمان والو! صبر اور نماز کے ساتھ مدد مانگو۔ اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کا ساتھ دیتا ہے۔‘‘ ]پھر فرمان ہے: { وَبَشِّرِ الصَّابِرِیْنَ۔ الَّذِیْنَ إِذَا أَصَابَتْھُمْ مُّصِیْبَۃٌ قَالُوْآ إِنَّـآ لِلّٰہِ وَإِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ أُولٰٓئِکَ عَلَیْھِمْ صَلَوَاتٌ مِّنْ رَّبِّھِمْ وَرَحْمَۃٌ وَّ أُولٰٓئِکَ ھُمُ الْمُھْتَدُوْنَ}[البقرۃ:۱۵۷][’’ صبر کرنے والوں کو خوشخبری دے دو، جنہیں جب کبھی کوئی مصیبت آتی ہے تو کہہ دیا کرتے ہیں کہ ہم تو خود اللہ کی ملکیت ہیں اور ہم اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں، ان پر ان کے رب کی نوازشیں اور رحمتیں ہیں اور یہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں۔‘‘ ]عمر بن خطاب ، خلیفۃ المسلمین ، بلا ارتیاب  رضی اللہ عنہ الوہاب مندرجہ بالا آیت کریمہ کے پیش نظر فرمایا کرتے تھے: (( نِعْمَ الْعَدْلاَنِ ، وَنِعْمَ الْعَلاَوَۃُ )) [’’ دوبرابر کی چیزیں اچھی ہیں، عنایات اور رحمتیں ایک زائد چیز اچھی ہے، یعنی ہدایت۔‘‘ [تفسیر ابن کثیر]آپ کے بیٹے کے لیے دعاء ہے:

(( اَللّٰھُمَّ اغْفِرْلَہٗ وَارْحَمْہُ وَعَافِہٖ وَاعْفُ عَنْہُ وَاَکْرِمْ نُزُلَہٗ وَوَسِّعْ مُدْخَلَہٗ وَاغْسِلْہٗ بِالْمَآئِ وَالثَّلْجِ وَالْبَرَدِ وَنَقِّہٖ مِنَ الْخَطَایَا کَمَا نَقَّیْتَ الثَّوْبَ الْاَبْیَضَ مِنَ الدَّنَسِ وَاَبْدِلْہُ دَارًا خَیْرًا مِّنْ دَارِہٖ وَاَھْلاً خَیْرًا مِّنْ أَھْلِہٖ وَزَوْجًا خَیْرًا مِّنْ زَوْجِہٖ ، وَاَدْخِلْہُ الْجَنَّۃَ وَاَعِذْہُ مِِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ وَمِنْ عَذَابِ النَّارِ ))

[’’اے اللہ! اس کی بخشش فرما، اس پر رحمت کر، اس سے درگزر کرکے معاف فرما، اس کی مہمانی اچھی فرما، اس کی رہائش گاہ کو کشادہ فرمادے، اسے پانی، برف اور اولوں سے دھو دے ، اسے کوتاہیوں سے اس طرح صاف کردے، جیسا صاف کیا تونے سفید کپڑے کو میل کچیل سے اور بدلے میں دے، اسے گھر زیادہ بہتر اس کے گھر سے اور گھر والے زیادہ بہتر اس کے گھر والوں سے اور بیوی زیادہ بہتر اس کی بیوی سے اور داخل فرما، اسے جنت میں اور بچا اسے قبر کے عذاب سے اور آگ کے عذاب سے۔‘‘  ]

(( اَللّٰھُمَّ اِنَّ فُلاَنَ بْنَ فُلاَنٍ فِیْ ذِمَّتِکَ وَحَبْلِ جَوَارِکَ فَقِہِ مِنْ فِتْنَۃِ الْقَبْرِ وَعَذَابِ النَّارِ وَاَنْتَ اَھْلُ الْوَفَائِ وَالْحَمْدِ اَللّٰھُمَّ فَاغْفِرْلَہٗ وَارْحَمْہُ اِنَّکَ اَنْتَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ ))

[’’ الٰہی یہ فلاں بن فلاں تیرے ذمے اور تیری رحمت کے سائے میں ہے، اسے فتنۂ قبر ، عذابِ قبر اور آگ کے عذاب سے بچا، تو وفا اور حق والا ہے۔ الٰہی اسے معاف کردے اور اس پر رحم فرما، بلاشبہ تو بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔‘‘]

(( اَللّٰھُمَّ عَبْدُکَ وَابْنُ أَمَتِکَ ، اِحْتَاجَ إِلٰی رَحْمَتِکَ ، وَأَنْتَ غَنِیٌّ عَنْ عَذَابِہٖ ، اِنْ کَانَ مُحْسِنًا فَزِدْ فِیْ حَسَنَاتِہٖ ، وَاِنْ کَانَ مُسِیْئًا فَتَجَاوَزْ عَنْہُ ))2

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

1 مسلم ؍ کتاب الجنائز ؍ باب الدعاء للمیت فی الصلاۃ

2 ابو داؤد ؍ الجنائز ؍ باب الدعاء للمیت ، ابن ماجۃ ؍ الجنائز ؍ باب ماجاء فی الدعاء فی الصلوٰۃ علی الجنازۃ

[الٰہی ! تیرہ بندہ ، تیری بندی کا بیٹا محتاج ہوگیا ہے تیری رحمت کا، اور تو بے نیاز ہے اسے عذاب دینے سے، اگر تھا یہ نیک تو اضافہ فرما اس کی نیکیوں میں اور اگر تھا یہ گناہ گار تو درگزر فرما اس سے۔‘‘]

اللہ تعالیٰ کاذکر کثرت سے کرتے رہا کریں۔ (( ألا بذکر اللّٰہ تطمئِن القلوب ))   ۱۳ ؍ ۴ ؍ ۱۴۲۱ھ

 

قرآن وحدیث کی روشنی میں احکام ومسائل

جلد 02 ص 376

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ