میت کو قبر میں دفن کرنے کے بعد قبر پر کھڑے ہوکر ہاتھ اٹھاکر جو اجتماعی دعا کی جاتی ہے کیا یہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کاطریقہ ہے ، اگر ہے تو حدیث بحوالہ تحریر فرمادیجئے؟ (محمد یونس شاکر)
مشکوٰۃ میں بحوالہ ابو داؤد لکھا ہے: (( کَانَ النَّبِیُّ صلی الله علیہ وسلم اِذَا فَرَغَ مِنْ دَفْن الْمَیِّتِ وَقَفَ عَلَیْہِ ، فَقَالَ: اِسْتَغْفِرُوْا لِأَخِیْکُمْ ثُمَّ سَلُوْالَہٗ بِالتَّثْبِیْتِ فَإِنَّہٗ الْآنَ یُسْأَلُ )) [ ’’ نبی صلی الله علیہ وسلم جب میت کو دفن کرکے فارغ ہوتے تو کھڑے ہوتے اور فرماتے اپنے بھائی کے لیے استغفار کرو، پھر اس کے لیے ثابت قدمی کی دعا کرو، پس بے شک اب وہ سوال کیا جائے گا؟ ‘‘3 [۱ ؍ ۴۸ ؍ ح:۱۳۳] نیز فتح الباری شرح صحیح البخاری میں ہے: (( وَفِیْ حَدِیْثِ ابنِ مَسْعُوْدٍ: رَأَیْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی الله علیہ وسلم فِیْ قَبْرِ عَبْدِ اللّٰہِ ذِی النَّجَادَیْنِ۔ الحدیث ، وَفِیہِ: فَلَمَّا فَرَغَ مِنْ دَفْنِہٖ اِسْتَقْبَلَ الْقِبْلَۃَ رَافِعًا یَدَیْہِ۔ أَخْرَجَہُ أَبُوْ عَوَانَۃَ فِیْ صَحِیْحِہٖ ۱ ھ )) [’’ اور ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے، میں نے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کو دیکھا عبداللہ ذی النجادین کی قبر میں۔‘‘ [الحدیث] اور اس میں ہے جب آپ صلی الله علیہ وسلم اس کے دفن سے فارغ ہوئے تو قبلہ رخ ہوئے، ہاتھوں کو اٹھائے ہوئے۔ نکالا اس کو ابوعوانہ نے اپنی صحیح میں۔ ‘‘][۱۱ ؍ ۱۴۴]
(( عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ قَیْسِ بْنِ مَخْزَمَۃَ بْنِ الْمُطَّلِبِ اَنَّہٗ قَالَ یَوْمًا: اَلاَ اُحَدِّثُکُمْ عَنِّیْ وَعَنْ اُمِّیْ؟
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
3 مشکوٰۃ ؍ کتاب الایمان ؍ باب اثبات عذاب القبر الفصل الثانی
فَظَنَنَّا اَنَّہٗ یُرِیْدُ اُمَّہُ الَّتِیْ وَلَدَتْہُ قَالَ: قَالَتْ عَائِشَۃُ رضی الله عنہ اَلاَ اُحَدِّثُکُمْ عَنِّیْ وَعَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی الله علیہ وسلم قُلْنَا بَلٰی قَالَتْ
لَمَّا کَانَتْ لَیْلَتِیَ الَّتِیْ کَانَ النَّبِیُّ صلی الله علیہ وسلم فِیْھَا عِنْدِی انْقَلَبَ فَوَضَعَ رِدَائَہٗ وَخَلَعَ نَعْلَیْہِ فَوَضَعَھُمَا عِنْدَ رِجلَیْہِ وَبَسَطَ طَرَفَ اِزَارِہٖ عَلٰی فِرَاشِہٖ فَاضْطَجَعَ فَلَمْ یَلْبَثْ اِلاَّ رَیْثَمًا ظَھَرَ اَنَّہٗ قَدْ رَقَدْتُ فَاَخَذَ رِدَائَہٗ رُوَیْدًا وَانْتَعَلَ رُوَیْدًا وَفَتَحَ الْبَابَ [رُوَیْدًا] فَخَرَجَ ثُمَّ اَجَافَہٗ رُوَیْدًا فَجَعَلْتُ دِرْعِیْ فِیْ رَأْسِیْ وَاخْتَمَرْتُ وَتَقَنَّعْتُ اِزَارِیْ ثُمَّ انْطَلَقْتُ عَلٰی اِثْرِہٖ حَتّٰی جَائَ الْبَقِیْعَ فَقَامَ فَاَطَالَ الْقِیَامَ ثُمَّ رَفَعَ یَدَیْہِ ثَلاَثَ مَرَّاتٍ ثُمَّ انْحَرَفَ فَانْحَرَفْتُ وَاَسْرَعَ فَاَسْرَعْتُ فَھَرْوَلَ فَھَرْوَلْتُ فَأَحْضَرَ فَاَحْضَرْتُ فَسَبَقْتُہٗ فَدَخَلْتُ فَلَیْسَ اِلاَّ اَنِ اضْطَجَعْتُ فَدَخَلَ فَقَالَ: مَالَکِ یَا عَائِشُ حَشْیَا رابِیَۃً؟ قَالَتْ: قُلْتُ لاَ شَیْئَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی الله علیہ وسلم قَالَ لَتُخْبِرِیْنِیْ اَوْ لَیُخْبِرَنِّیَ اللَّطِیْفُ الْخَبِیرُ قَالَتْ قُلْتُ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی الله علیہ وسلم بِأَبِیْ اَنْتَ وَاُمِّیْ فَأَخْبَرْتُہُ الْخَبَرَ قَالَ فَاَنْتِ السَّوَادُ الَّذِیْ رَاَیْتُہٗ اَمَامَی؟ قُلْتُ: نَعَمْ۔ فَلَھَزَنِیْ فِیْ صَدْرِیْ لَھْزَۃً اَوْ جَعَتْنِیْ ثُمَّ قَالَ اَظَنَنْتِ اَنْ یَحِیْفَ اللّٰہُ عَلَیْکِ وَرَسُولُہٗ؟ قَالَتْ: مَھْمَا یَکْتُمِ النَّاسُ یَعْلَمْہُ اللّٰہُ (قَالَ) نَعَمْ۔ قَالَ: (( فَاِنَّ جِبْرِیْلَ اَتَانِیْ حِیْنَ رَاَیْتِ فَنَادَانِیْ فَاَحْفَاہُ مِنْکِ فَاَجَبْتُہٗ فَاَخْفَیْتُہٗ مِنْکِ وَلَمْ یَکُنْ لِیَدْخُلَ عَلَیْکِ وَقَدْ وَضَعْتِ ثِیَابَکِ وَظَنَنْتُ اَنْ قَدْرَ قَدْتِ فَکَرِھْتُ اَنْ اُوْ قِظَکِ وَخَشِیْتُ اَنْ تَسْتَوحِشِیْ فَقَالَ اِنَّ رَبَّکَ یَاْمُرْکَ اَنْ تَأْتِیَ اَھْلَ الْبَقِیْعِ فَتَسْتَغْفِرَلَھُمْ ))
قَالَ قُوْلِیْ: اَلسَّلاَمُ عَلٰی اَھْلِ الدِّیَارِ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُسْلِمِیْنَ وَیَرْحَمُ اللّٰہُ المُسْتَقْدِمِیْنَ مِنَّا وَالْمُسْتَـأْخِرِیْنَ وَاِنَّا اِنْ شَائَ اللّٰہُ بِکُمْ لَلَاحِقُوْنَ ))
ترجمہ:… ’’ محمد بن قیس بن مخرمہ بن المطلب نے ایک دن کہا: میں اپنی اور اپنی ماں کی بات نہ بتاؤں؟ ہم نے سمجھا کہ وہ اپنی حقیقی والدہ کی بات کہہ رہے ہیں۔ کہنے لگے: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہما نے پوچھا کہ میں تمہیں اپنی اور رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کی ایک رودادنہ سناؤں؟ ہم نے کہا: ہاں 1 کیوں نہیں۔ تو فرمانے لگیں: ایک روز میری باری پر رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم میرے ہاں تھے۔ گھر پہنچ کر آپ نے چادر رکھ دی، جوتے بھی اتار کر پاؤں کے قریب رکھ دیئے اور اپنی چادر کا ایک حصہ بستر پر بچھاکر لیٹ گئے۔ تھوڑی دیر بعد جب انہیں اندازہ ہوا کہ میں سوچکی ہوں تو آہستہ سے چادر اٹھائی، چپکے سے جوتے پہنے ، دروازہ کھول کر باہر نکل گئے اور آہستہ سے دروازہ بند کردیا۔ چنانچہ میں نے بھی اوڑھنے کی چادر سر پر رکھی اور تیار ہوگئی۔ پھر میں آپ کے پیچھے پیچھے چلتی رہی۔ حتی کہ آپ صلی الله علیہ وسلم بقیع میں تشریف لائے۔ آپ دیر تک ٹھہرے رہے، پھر آپ نے تین مرتبہ ہاتھ اٹھاکر دعاکی ، جب آپ پلٹے تو میں بھی پلٹ پڑی۔ آپ نے قدم تیز کیے تو میں بھی تیز ہوگئی۔ آپ نے دوڑنا شروع کردیا، تو میں بھی دوڑنے لگی، آپ بھی پہنچے میں بھی پہنچ گئی، لیکن ذرا پہلے بس میں لیٹی ہی تھی کہ آپ تشریف لے آئے۔ پوچھا:’’ عائش (حضرت عائشہ کا لاڈ کا نام)سانس کیوں پھول رہا ہے؟‘‘ میں نے کہا: کوئی بات نہیں۔ فرمایا: ’’بتادو تو ٹھیک ہے ورنہ اللہ علیم و خبیر بتادے گا۔‘‘ میں نے کہا: میرے والدین آپ پر نثار اور پھر ساری بات بتادی۔ آپ نے فرمایا: ’’وہ کالا سایہ میرے آگے آگے تم تھیں؟‘‘ میں نے کہا: ہاں۔ پھر آپ نے میرے سینے پر زور دار ہاتھ مارا، جس سے مجھے تکلیف ہوئی۔ پھر فرمایا: ’’تمہارا کیا خیال ہے کہ اللہ اور اس کا رسول تمہارے ساتھ ناانصافی کریں گے؟
حضرت عائشہ نے کہا: لوگ جتنا بھی چھپاتے رہیں، اللہ تو جانتا ہی ہے۔ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ہاں۔‘‘ پھر آپ نے حقیقت حال بیان کرتے ہوئے کہا، جب تم نے دیکھا اس وقت جبریل امین آئے تھے، انہوں نے مجھے آہستہ سے بلایا، تاکہ تمہیں اطلاع نہ ہو، میں نے بھی آہستہ سے جواب دیا، تاکہ تمہیں خبر نہ ہو، وہ تمہارے پاس نہیں آسکتے تھے، کیونکہ تم نے کپڑے اتار لیے تھے۔ میرا خیال تھا کہ تم سوچکی ہو، تمہیں جگانا پسند نہ کیا۔ مجھے اندیشہ تھا کہ تم ڈروگی۔ جبریل امین نے آکر کہا کہ تمہارے رب کا حکم ہے کہ اہل بقیع کے پاس جاکر ان کے حق میں دعائے مغفرت کرو۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہما بیان کرتی ہیں کہ میں نے دریافت کیا: اے اللہ کے رسول صلی الله علیہ وسلم1 میں ایسے موقع پر ان کے لیے کیاکہا کروں؟ آپ نے فرمایا: ’’کہو مؤمن اور مسلمان گھر والوں پر اللہ کی سلامتی ہو ، اللہ اگلوں اور پچھلوں پر رحمت فرمائے۔ ہم بھی ان شاء اللہ تمہارے پاس ، پہنچنے والے ہیں۔ ‘‘ 1
(( عَنْ عَائِشَۃَ رضی اللہ عنہما قَالَتْ خَرَجَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی الله علیہ وسلم ذَاتَ لَیْلَۃٍ فَاَرْسَلْتُ بَرِیْرَۃَ فِیْ اَثَرِہ لِتَنْظُرَ اَیْنَ ذَھَبَ قَالَتْ فَسَلَکَ نَحْوَ بَقِیْعِ الْغَرْقَدِ فَوَقَفَ فِیْ اَدْنَی الْبَقِیْعِ ثُمَّ رَفَعَ یَدَیْہِ ثُمَّ انْصَرَفَ فَرَجَعَتْ الَیَّ بَرِیْرَۃُ فَاَخْبَرَتْنِیْ فَلَمَّا اَصْبَحْتُ سَاَلْتُہٗ فَقُلْتُ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی الله علیہ وسلم اَیْنَ خَرَجْتَ اللَّیْلَۃَ؟ قَالَ: بُعِثْتُ اِلٰی اَھْلِ الْبَقِیْعِ لِاُصَلِّیَ عَلَیْھِمْ۔ )) 2
ترجمہ:… ’’ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہما بیان کرتی ہیں کہ ایک رات رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم گھر سے نکلے میں نے بریرہ
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 صحیح مسلم ؍ کتاب الجنائز ؍ باب ما یقال عند دخول المقابر ، سنن نسائی ؍ کتاب الجنائز ؍ باب الامر بالاستغفار للمومنین
2 مؤطا امام مالک ؍ کتاب الجنائز ؍ باب جامع الجنائز ، سنن النسائی ؍ کتاب الجنائز ؍ باب الامر بالاستغفار للمؤمنین
کو آپ صلی الله علیہ وسلم کے پیچھے بھیجا، تاکہ دیکھے کہ آپ کہاں گئے ہیں؟ بریرہ نے بتایا کہ آپ صلی الله علیہ وسلم بقیع الغرقد کی طرف گئے، پھر بقیع کے قریب کھڑے ہوکر ہاتھ اٹھائے، پھر پلٹ آئے، بریرہ نے واپس آکر مجھے ساری بات بتادی، صبح ہوئی تو میں نے پوچھا: آپ صلی الله علیہ وسلم رات کو کہاں تشریف لے گئے؟ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے اہل بقیع کی طرف بھیجا گیا تھا، تاکہ ان کے حق میں دعا کروں۔‘‘ ۲۴ ؍ ۱۲ ؍ ۱۴۲۱ھ