سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(429) مشرکوں اور مؤمنوں کی جو اولاد بھی بلوغت کو پہنچنے سے پہلے

  • 4797
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 2839

سوال

(429) مشرکوں اور مؤمنوں کی جو اولاد بھی بلوغت کو پہنچنے سے پہلے
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

مشرکوں اور مؤمنوں کی جو اولاد بھی بلوغت کو پہنچنے سے پہلے وفات پاجائے ان کا کیا حکم ہے، کیا وہ جنتی ہیں؟             (خاور رشید، لاہور)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

مؤمنوں کے وہ بچے جو قبل از بلوغت و تکلیف فوت ہوگئے ، جنت میں جائیں گے۔ ان شاء اللہ تعالیٰ۔ اور کفار کے وہ بچے جو قبل از بلوغت و تکلیف فوت ہوگئے، آخر میں ان کا امتحان ہوگا، جو پاس ہوگئے جنت میں جائیں گے اور جو فیل ہوگئے، جہنم و دوزخ میں جائیں گے۔ ان شاء اللہ تبارک وتعالیٰ۔ اس مسئلہ پر تفصیل دیکھنا چاہتے ہیں تو فتح الباری سے کتاب الجنائز کے دو باب نمبر۱: ’’ باب ما قِیْل فی اولاد المسلمین ‘‘ اور نمبر۲: ’’ باب ماقیل فی أولاد المشرکین ‘‘پڑھ لیں۔

[ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ نے نبی کریم  صلی الله علیہ وسلم سے روایت کیا کہ’’ جس کے تین نابالغ بچے مرجائیں ، تو یہ بچے اس کے لیے دوزخ سے روک بن جائیں گے یا یہ کہا کہ وہ جنت میں داخل ہوگا۔ ‘‘

انس بن مالک  رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ  صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ: ’’ جس مسلمان کے بھی تین نابالغ بچے مرجائیں ، تو اللہ تعالیٰ اپنے فضل و رحمت سے جو ان بچوں پر کرے گا ان کو بہشت میں لے جائے گا۔‘‘

براء بن عازب  رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، انہوں نے فرمایا کہ: ’’ جب ابراہیم (نبی  علیہ السلام کے صاحبزادے) کا انتقال ہوا تو رسول اللہ  صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’بہشت میں ان کے لیے ایک دودھ پلانے والی ہے۔‘‘ 1

نبی کریم  صلی الله علیہ وسلم سے مشرکوں کے نابالغ بچوں کے بارے میں پوچھاگیا، آپؐ نے فرمایا کہ’’ اللہ تعالیٰ نے جب انہیں پیدا کیا تھا، اسی وقت وہ خوب جانتا تھا کہ یہ کیا عمل کریں گے۔‘‘

نبی کریم  صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ ہر بچہ کی پیدائش فطرت پر ہوتی ہے، پھر اس کے ماں باپ اسے یہودی، نصرانی یا مجوسی بنادیتے ہیں۔ بالکل اس طرح جیسے جانور کے بچے صحیح سالم ہوتے ہیں۔ کیا تم نے (پیدائشی طور پر) کوئی ان کے جسم کا حصہ کٹا ہوا دیکھا ہے۔‘‘

سمرہ بن جندب  رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم  صلی الله علیہ وسلم نماز (فجر) پڑھنے کے بعد ( عموماً) ہماری طرف منہ کرکے بیٹھ جاتے اور پوچھتے کہ ’’آج رات کسی نے کوئی خواب دیکھا ہو تو بیان کرے۔‘‘ راوی نے کہا کہ اگر کسی نے کوئی خواب دیکھا ہوتا تو اسے وہ بیان کردیتا اور آپ اس کی تعبیر اللہ کو جو منظور ہوتی،بیان فرماتے۔ ایک دن آپ نے معمول کے مطابق ہم سے دریافت فرمایا : ’’ کیا آج رات کسی نے تم میں کوئی خواب دیکھا ہے؟ ‘‘ ہم نے عرض کی

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

1 صحیح بخاری ؍ کتاب الجنائز ؍ باب ما قیل فی اولاد المسلمین

کہ کسی نے نہیں دیکھا۔ آپ نے فرمایا: ’’ لیکن میں نے آج رات ایک خواب دیکھا ہے۔ کہ دو آدمی میرے پاس آئے۔ انہوں نے میرے ہاتھ تھام لیے اور وہ مجھے ارض مقدس کی طرف لے گئے۔ (اور وہاں سے عالم بالا کی مجھ کو سیر کرائی۔) وہاں کیا دیکھتا ہوں کہ ایک شخص تو بیٹھا ہوا ہے اور ایک شخص کھڑا ہے اور اس کے ہاتھ میں لوہے کا آنکس تھا، جسے وہ بیٹھنے والے کے جبڑے میں ڈال کر اس کے سر کے پیچھے تک چیر دیتا تھا، پھر دوسرے جبڑے کے ساتھ بھی اسی طرح کرتا تھا، اس دوران میں اس کا پہلا جبڑا صحیح اور اپنی اصلی حالت پرآجاتا اور پھر پہلے کی طرح وہ اسے دوبارہ چیرتا۔‘‘ میں نے پوچھا کہ : ’’ یہ کیا ہورہا ہے؟‘‘ میرے ساتھ کے دونوں آدمیوں نے کہا کہ آگے چلو، چنانچہ ہم آگے بڑھے ، تو ایک ایسے شخص کے پاس آئے، جو سر کے بل لیٹا ہوا تھا اور دوسرا شخص ایک بڑا سا پتھر لیے اس کے سر پر کھڑا تھا۔ اس پتھر سے وہ لیٹے ہوئے شخص کے سر کو کچل دیتا تھا، جب وہ اس کے سر پر پتھر مارتا ، تو سر پر لگ کر وہ پتھر دور چلا جاتا اور وہ اسے جاکر اٹھالاتا، ابھی پتھر لے کر واپس بھی نہیں آتا تھا کہ سر دوبارہ درست ہوجاتا، بالکل ویسا ہی جیسا پہلے تھا۔ واپس آکر وہ پھر اسے مارتا۔میں نے پوچھا کہ: ’’ یہ کون لوگ ہیں؟ ‘‘ ان دونوں نے جواب دیا کہ ابھی اور آگے چلو۔ چنانچہ ہم آگے بڑھے تو ایک تنور جیسے گڑھے کی طرف چلے ، جس کے اوپر کا حصہ تو تنگ تھا، لیکن نیچے سے خوب فراخ۔ نیچے آگ بڑھک رہی تھی۔ جب آگ کے شعلے بڑھک کر اوپر کو اٹھتے تو اس میں جلنے والے لوگ بھی اوپر اٹھ آتے اور ایسا معلوم ہوتا کہ اب وہ باہر نکل جائیں گے، لیکن جب شعلے دب جاتے تو وہ لوگ بھی نیچے چلے جاتے ، اس تنور میں ننگے مرد اور عورتیںتھیں۔ میں نے اس موقع پر بھی پوچھا کہ : ’’ یہ کیا ہے؟‘‘ لیکن اس مرتبہ بھی جواب یہی ملا کہ ابھی اور آگے چلو۔ ہم آگے چلے۔ اب ہم خون کی ایک نہر کے اوپر تھے۔ نہر کے اندر ایک شخص کھڑا تھا اور اس کے بیچ میں ایک شخص تھا، جس کے سامنے پتھر رکھا ہوا تھا، نہر کا آدمی جب باہر نکلنا چاہتا تو پتھر والا شخص اس کے منہ پر اتنی زور سے پتھر مارتا کہ وہ اپنی پہلی جگہ پر چلا جاتا اور اسی طرح جب بھی وہ نکلنے کی کوشش کرتا ، وہ شخص اس کے منہ پر پتھر اتنی ہی زور سے پھر مارتا کہ وہ اپنی اصلی جگہ پر نہر میں چلا جاتا۔ میں نے پوچھا: ’’ یہ کیا ہورہا ہے؟ ‘‘ انہوں نے جواب دیا کہ ابھی اور آگے چلو۔ چنانچہ ہم اور آگے بڑھے اور ہرے بھرے باغ میں آئے، جس میں بہت بڑا درخت تھا، اس درخت کی جڑ میں ایک بڑی عمر والے بزرگ بیٹھے ہوئے تھے۔ درخت سے قریب ہی ایک شخص اپنے آگے آگ سلگا رہا تھا۔ میرے دونوں ساتھی مجھے لے کر اس درخت پر چڑھے اس طرح وہ مجھے ایک ایسے گھر میں اندر لے گئے کہ اس سے زیادہ حسین و خوبصورت اور بابرکت گھر میں نے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ اس گھر میں بوڑھے، جوان، عورتیں اور بچے تھے۔ میرے ساتھی مجھے اس گھر سے نکال کر ، پھر ایک اور درخت پر چڑھا کر مجھے ایک اور دوسرے گھر میں لے گئے، جو نہایت خوبصورت اور بہتر تھا، اس میں بھی بہت سے بوڑھے اور جوان تھے۔ میں نے اپنے ساتھیوں سے کہا تم لوگوں نے مجھے رات بھر سیر کرائی۔ کیا جو کچھ میںنے دیکھا اس کی تفصیل بھی کچھ بتلاؤ گے؟ انہوں نے کہا: ’’ ہاں1 وہ جو تم نے دیکھا تھا، اس آدمی کا جبڑا لوہے کے آنکس سے پھاڑا جارہا تھا، تو وہ جھوٹا آدمی تھا، جو جھوٹی باتیں بیان کیا کرتا تھا۔ اس سے وہ جھوٹی باتیں دوسرے لوگ سنتے ، اس طرح ایک جھوٹی بات دور دور تک پھیل جایا کرتی تھی، اسے قیامت تک یہی عذاب ہوتا رہے گا۔ جس شخص کو تم نے دیکھا کہ اس کا سر کچلا جارہا تھا ، تو وہ ایک ایسا انسان تھا، جسے اللہ تعالیٰ نے قرآن کا علم دیا تھا، لیکن وہ رات کو پڑا سوتا رہتا اور دن میں اس پر عمل نہیں کرتا تھا، اسے بھی یہ عذاب قیامت تک ہوتا رہے گا اورجنہیں تم نے تنور میں دیکھا تو وہ زناکار تھے۔ اور جس کو تم نے نہر میں دیکھا وہ سود خور تھا۔ اور وہ بزرگ جو درخت کی جڑ میں بیٹھے ہوئے تھے، وہ ابراہیم  علیہ السلام تھے اور ان کے ارد گرد والے بچے، لوگوں کی نابالغ اولاد تھی۔(صحیح بخاری ، کتاب التعبیر میں ان لفظوں کا اضافہ ہے کہ کیا مشرکوں کی اولاد کے لیے بھی یہی حکم ہے ؟ فرمایا : ہاں1 اولاد مشرکین کے لیے بھی۔) اور جو شخص آگ جلا رہا تھا، وہ دوزخ کا داروغہ تھا اور وہ گھر جس میں تم پہلے داخل ہوئے، جنت میں عام مومنوں کا گھر تھا اور یہ گھر جس میں تم اب کھڑے ہو یہ شہداء کا گھر ہے اور میں جبریل ہوں اور یہ میرے ساتھ میکائیل ہیں۔ اب اپنا سر اٹھاؤ۔ میں نے سر اٹھایا تو کیا دیکھتا ہوں کہ میرے اوپر بادل کی طرح کوئی چیز ہے۔ میرے ساتھیوں نے کہا یہ تمہارا مکان ہے۔ میںنے کہا: پھر مجھے اپنے مکان میں جانے دو۔ انہوں نے کہا ابھی تمہاری عمر باقی ہے، جو تم نے پوری نہیں کی، اگر آپ وہ پوری کرلیتے ، تو اپنے مکان میں آجاتے۔‘‘ 1

مشرکین کی اولاد کے بارہ میں حافظ ابن حجر  رحمہ الله نے درج ذیل اقوال بیان کیے ہیں:

 1       وہ اللہ کے اختیار میں ہے، چاہے تو جنت میں رکھے یا دوزخ میں ڈالے۔

 2       وہ اپنے ماں باپ کے ساتھ دوزخ میں رہیں گے۔

 3       وہ جنت اور دوزخ کے درمیان مقام اعراف پر ہوں گے۔

 4       اہل جنت کے خادم ہوں گے۔

 5       وہ مٹی ہوجائیں گے۔

 6       آخرت میں ان کا امتحان ہوگا، جو پاس ہوگئے، جنت میں جائیں گے اور جو فیل ہوگئے، جہنم و دوزخ میں

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

1 صحیح بخاری ؍ کتاب الجنائز ؍ باب ماقیل فی اولاد المشرکین

جائیں گے۔

 7       جنت میں ہوں گے۔]                                               ۲۷ ؍ ۱ ؍ ۱۴۲۲ھ

 

قرآن وحدیث کی روشنی میں احکام ومسائل

جلد 02 ص 358

محدث فتویٰ

تبصرے