میں نے امام محمد بن عبدالوہاب کی کتاب ’’ نصیحۃ المسلمین ‘‘میں مندرجہ ذیل حدیث پڑھی:
’’ عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے ایک دن کہا جبکہ ایک شخص نے اٹھ کر بہت باتیں کیں۔ پس عمرو رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اگر یہ شخص اپنی بات میں اعتدال اختیار کرتا تو اس کے لیے بہتر تھا۔ میں نے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کو فرماتے سنا تھا میں یہ سمجھتا ہوں یا یہ فرمایا کہ مجھے حکم ملا ہے کہ مختصر بات کروں، کیونکہ اختصار ہی بہتر ہوتا ہے۔ ‘‘ (یعنی حاجت سے زائد بات کرنا فضول ہے۔) [ابوداؤد]
اس حدیث کے بارے میں فرمائیں اور یہ بھی ضرور بتائیں کہ جمعہ کی تقریر کتنی دیر کی ہونی چاہیے؟ اور عام درس کتنی دیر کا ہو؟ (میاں سرفراز اسلم ، اوکاڑہ)
آپ کی پیش کردہ ابو داؤد والی حدیث کتاب الأدب باب ماجاء فی التشدق فی الکلام میں موجود ہے اور حسن درجے کی ہے۔ خطبہ و درس کی تحدید کتاب و سنت میں وارد نہیں ہوئی۔