سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(384) آٹھ رکعات تراویح مسنون ہے۔۔الخ

  • 4752
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1004

سوال

(384) آٹھ رکعات تراویح مسنون ہے۔۔الخ
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

آٹھ رکعات تراویح مسنون ہے۔۔ کیا اس سے زائد رکعات( بطور عام نوافل) بعد از مسنون تراویح پڑھنا درست ہے یا نہیں؟            ( محمد صدیق ، ضلع ایبٹ آباد)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

وقت زیادہ لگانا چاہتا ہے تو قیام و تلاوت کو لمبا کرلے ۔ رسول اللہ  صلی الله علیہ وسلم کا عمل بھی ہے اور آپ کا فرمان بھی ہے:  (( طُوْلُ الْقُنُوْتِ ))4 [جابر  رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں رسول اللہ  صلی الله علیہ وسلم سے پوچھا گیا کونسی نماز بہتر ہے؟ آپ نے فرمایا: ’’لمبے قیام والی۔‘‘] خطبہ مسنونہ میں ہے :  (( وَخَیْرَ الْھَدْیِ ھَدْیُ مُحَمَّدٍ صلی الله علیہ وسلم)) 5  [’’اور سب سے بہترین طریقہ محمد  صلی الله علیہ وسلم کا طریقہ ہے۔‘‘]

حذیفہ  رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں ایک رات نبی  صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ نفلی نماز میں شریک ہوا ۔ آپ نے سورۂ بقرہ شروع کی ۔ میں نے سوچا آپ سو آیات پڑھ کر رکوع میں جائیں گے ، مگر آپ صلی الله علیہ وسلم پڑھتے چلے گئے میں نے خیال کیا کہ سورۃ بقرہ کو دو رکعتوں میں تقسیم کریں گے لیکن آپ صلی الله علیہ وسلم پڑھتے رہے ، آپ صلی الله علیہ وسلم نے سورۂ بقرہ ختم کر کے سورۂ نساء شروع کر لی ، پھر اسے ختم کر کے سورہ آل عمران کو پڑھنا شروع کر دیا اس کو بھی ختم کر ڈالا ۔ آپؐ نہایت آہستگی سے پڑھتے جاتے تھے جب ایسی آیت کی تلاوت کرتے جس میں سبحان اللہ کہنے کا حکم ہوتا تو سبحان اللہ کہتے اگر کچھ مانگنے کا ذکر ہوتا تو سوال کرتے ،اگر پناہ کا ذکر ہوتا تو اعوذ باللہ پڑھتے ، آل عمران ختم کر کے آپ  صلی الله علیہ وسلمنے رکوع کیا۔ 6

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

4 مسلم؍کتاب صلوٰۃ المسافرین؍باب صلاۃ اللیل و عدد رکعات النبی صلی الله علیہ وسلم فی اللیل ۔ ترمذی؍ابواب الصلاۃ؍باب ما جاء فی طول القیام فی الصلاۃ

5 مسلم؍کتاب الجمعۃ؍باب رفع الصوت فی الخطبۃ و ما یقول فیھا

6 مسلم؍کتاب صلاۃ المسافرین؍باب استحباب تطویل القراء ۃ فی صلاۃ اللیل

 

قرآن وحدیث کی روشنی میں احکام ومسائل

جلد 02 ص 296

محدث فتویٰ

تبصرے