عام پر امن حالات میں نمازِ فجر میں دعائے قنوت (نازلہ نہیں ، عام دعائے قنوت) پڑھنی چاہیے یا نہیں؟ شافعیہ اس کے ترک پر سجدہ سہو کے قائل ہیں اور محدث عبداللہ روپڑی کے نزدیک کبھی پڑھ لے اور کبھی ترک کر دے؟نبی صلی الله علیہ وسلم صبح کی نماز میں اور وتر میں دعائے قنوت پڑھا کرتے تھے(سنن کبریٰ للبیہقی جلد:۲) محدث روپڑی لکھتے ہیں: ’’صبح کی نماز میں رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم سے ترک بھی ثابت ہے ، اس لیے نمازِ فجر میں ہمیشگی سے مراد کثرت ہو گی۔‘‘
ہمارے شیخ مفخم و استاذ مکرم حافظ عبداللہ صاحب محدث روپڑی رحمہ اللہ تعالیٰ کا فتویٰ درست و صحیح ہے ۔
[براء بن عازب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نمازِ فجر اور مغرب میں قنوت فرماتے تھے ۔1 ابو مالک اشجعی فرماتے ہیں : میں نے اپنے والد محترم سے پوچھا ابا جان1 آپ نے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم ، ابو بکر ، عثمان اور علی رضوان اللہ علیھم اجمعین کے پیچھے کوفہ میں تقریباً پانچ سال کے عرصہ تک نمازیں پڑھی ہیں کیا وہ قنوت کرتے تھے ؟ انہوں نے فرمایا: بیٹا بدعت ہے۔ 2
1 مسلم؍ المساجد؍باب استحباب القنوت فی جمیع الصلوٰت۔ ترمذی ؍ابواب الصلاۃ ؍باب ما جاء فی القنوت فی صلاۃ الفجر
2 نسائی؍الافتتاح؍باب ترک القنوت۔ ترمذی؍الصلاۃ؍باب فی ترک القنوت