سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(306) کیا قنوت وتر رکوع کے بعد اور پہلے دونوں طرح درست ہے؟

  • 4737
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 1401

سوال

(306) کیا قنوت وتر رکوع کے بعد اور پہلے دونوں طرح درست ہے؟
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا قنوت وتر رکوع کے بعد اور پہلے دونوں طرح درست ہے یا بعد از رکوع بدعت یا غلط ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

ہاں دونوں طرح درست ہے۔ قنوت وتر قبل از رکوع کی دلیل ابی بن کعب  رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے۔ نسائی اور ابن ماجہ میں ہے: (( عَنْ أُبَیِّ بْنِ کَعْبٍ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ  صلی الله علیہ وسلم کَانَ یُوْتِرُ بِثَلاَثِ رَکْعَاتٍ وَیَقْنُتُ قَبْلَ الرُّکُوْعِ ))1 [’’رسول اللہ  صلی الله علیہ وسلم تین وتر پڑھتے اور دعائِ قنوت رکوع سے پہلے پڑھتے تھے۔ ‘‘] اور قنوت وتر بعد از رکوع کی دلیل ہے۔ حسن بن علی  رضی الله عنہ والی حدیث چنانچہ مستدرک حاکم میں ہے: (( إِذَا رفعت رأسی ولم یبق إلا السجود ))امام بیہقی نے اسی روایت کو بواسطہ حاکم اپنی سنن کبریٰ میں روایت فرمایا ہے۔ صاحب نیل الاوطار لکھتے ہیں: (( ففی بعض طرق الحدیث عند البیہقی التصریح بکونہ بعد الرکوع ، وقال: تفرد بذلک أبوبکر بن شیبۃ الحزامی ، وقد روی عنہ البخاری فی صحیحہ ، وذکرہ ابن حبان فی الثقات ، فلا یضر تفردہ ))2

اگر کوئی صاحب فرمائیں محدث دوران شیخ ناصر الدین البانی l إرواء الغلیلمیں لکھتے ہیں: (( قولہ فی روایۃ الحاکم: إذا رفعت رأسی ولم یبق إلا السجود۔ فی ثبوتہ نظر کما سبق بیانہ فی آخر الحدیث (۴۲۶) ))

تو ان کی خدمت میں مؤدبانہ گزارش ہے کہ محدث دوران شیخ ناصر الدین البانی l ہی حدیث نمبر: ۴۲۶ کی تخریج و تشریح کے آخر میں فرماتے ہیں: (( ینبغی أن یتأمل قولہ فی ھذا الطریق: إذا رفعت رأسی ولم یبق إلا السجود۔ فقد رأیت فی الجزء الثانی من فوائد أبی بکر أحمد بن الحسین بن مہران الأصبھانی تخریج الحاکم لہ قال: ثنا محمد بن یونس المقری قال: ثنا الفضل بن محمد البیہقی الخ۔ قلت: فذکرہ بسندہ ولفظ ابن مندۃ وفیہ الزیادۃ ، وابن یونس المقری ترجمہ الخطیب فی تاریخہ (۳؍۴۴۶) ووثقہ ، ولھذا مالت نفسی إلی ترجیح ھذا اللفظ بعد ثبوت ھذہ المتابعۃ۔ واللّٰہ أعلم۔ ۱ھ ))

(( قلت: إن الشیخ ناصر الدین الألبانی رحمہ اللّٰہ تعالیٰ رحمۃ واسعۃ قد نسی فی قولہ: فی ثبوتہ نظر الخ۔ قولہ قبل: ولھذا مالت نفسی إلی ترجیح ھذا اللفظ بعد ثبوت ھذہ المتابعۃ۔ ولم نجد لہ عزما ، فسبحان من لا یضل ولا ینسی۔ واللّٰہُ أعلم ))

اگر کوئی صاحب فرمائیں کہ محدث وقت شیخ البانی…l… نے لکھا ہے: (( فإن قولہ: أن أقول إذافرغت من قراء تی فی الوتر۔ ظاھر قبل الرکوع ))تو ان کی خدمت میں مؤدبانہ گزارش ہے کہ محدث وقت  شیخ البانی … i… نے ہی اس کے بعد لکھا ہے: (( لکن رواہ الحاکم (۳؍۱۷۲) وعنہ البیہقی (۳؍۳۸ ـ ۳۹) من طریقین آخرین عن الفضل بن محمد ابن المسیب الشعرانی بہ بلفظ: إذا رفعت رأسی ولم یبق إلا السجود )) إلی آخر ما نقلنا عنہ قبل۔

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

1 نسائی ؍ کتاب قیام اللیل ؍ باب کیف الوتر بثلاث، ابن ماجہ ؍ اقامۃ الصلاۃ ؍ باب ماجاء فی القنوت قبل الرکوع وبعدہ

2 نیل الأوطار ؍ ابواب صلوٰۃ التطوع ؍ باب وقت صلاۃ الوتر والقراء ۃ فیھا والقنوت

 

فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 04

تبصرے