الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
سجدے کی حالت میں دعا کرنا مسنون ہے کیوں کہ سجدہ میں انسان اللہ تعالی کے بہت قریب ہوتا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سجدہ میں دعا کرنے کا حکم دیا ہے، جیسا کہ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
أَقْرَبُ مَا يَكُونُ الْعَبْدُ مِنْ رَبِّهِ، وَهُوَ سَاجِدٌ، فَأَكْثِرُوا الدُّعَاء (صحیح مسلم، الصلاة: 482)
انسان رب کی رحمت کے قریب ترین سجدے کی حالت میں ہوتا ہے لہذا تم (سجدے میں) کثرت کے ساتھ دعا کرو۔
ایک دوسری حدیث میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
فَأَمَّا الرُّكُوعُ فَعَظِّمُوا فِيهِ الرَّبَّ عَزَّ وَجَلَّ، وَأَمَّا السُّجُودُ فَاجْتَهِدُوا فِي الدُّعَاءِ، فَقَمِنٌ أَنْ يُسْتَجَابَ لَكُمْ (صحیح مسلم، الصلاة: 479)
تم رکوع میں رب تعالی کی عظمت بیان کرو سجدے میں پوری لگن کے ساتھ دعا کرو کیونکہ (سجدے میں دعا) قبولیت کے زیادہ لائق ہے۔
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کےعمل کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سجدے میں یہ دعا پڑھا کرتے تھے:
اللهُمَّ اغْفِرْ لِي ذَنْبِي كُلَّهُ دِقَّهُ، وَجِلَّهُ، وَأَوَّلَهُ وَآخِرَهُ وَعَلَانِيَتَهُ وَسِرَّهُ (صحیح مسلم، الصلاة: 483)
اے اللہ میرے چھوٹے اور بڑے گناہ، پہلے اور بعد میں کیے گئے گناہ، ظاہری اور مخفی گناہ سارے کے سارے معاف فرما دے۔
مندرجہ بالا احادیث مبارکہ سے پتہ چلتا ہے کہ انسان کو فرض اور نفل نمازوں میں سجدے کی حالت میں کثرت کے ساتھ دعا کرنی چاہیے کیوں کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کرنے کا حکم دیا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود بھی سجدے میں دعا کیا کرتے تھے۔
انسان کو دعا کرتے وقت کوشش کرنی چاہیے کہ ان الفاظ کے ساتھ دعا کرے جو قرآنی آیات یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہوں، سوال میں مذکور دعا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے، اس کے علاوہ بھی بہت سی مسنون دعائیں ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز جنازہ میں یا میت کے لیے کیا کرتے تھے، اپنے والدین یا عزیز و اقارب کی مغفرت کے لیے یہ تمام دعائیں پڑھی جا سکتی ہیں، کیوں کہ مرنے کے بعد انسان کو لواحقین کی دعاؤں سے ثواب اور فائدہ پہنچتا ہے۔ جیسا کہ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إِذَا مَاتَ الْإِنْسَانُ انْقَطَعَ عَنْهُ عَمَلُهُ إِلَّا مِنْ ثَلَاثَةٍ: إِلَّا مِنْ صَدَقَةٍ جَارِيَةٍ، أَوْ عِلْمٍ يُنْتَفَعُ بِهِ، أَوْ وَلَدٍ صَالِحٍ يَدْعُو لَهُ. (صحیح مسلم، الوصية: 1631)
جب انسان فوت ہوجاتا ہے اس کے تمام اعمال منقطع ہوجاتے ہیں مگر تین چیزیں (یعنی ان تین چیزوں کا ثواب اسے پہنچتا رہتا ہے): صدقہ جاریہ یا علم جس سے فائدہ حاصل کیا جاتا رہے، یا نیک اولاد جو اس (اپنے والدین) کے لیے دعا کرتی رہے۔
والله أعلم بالصواب
محدث فتویٰ کمیٹی
01. فضیلۃ الشیخ ابومحمد عبدالستار حماد حفظہ اللہ
02. فضیلۃ الشیخ عبدالخالق حفظہ اللہ