سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(297) آپ نے پاؤں کی انگلیوں میں خنصر کے ساتھ خلال..الخ

  • 4728
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 975

سوال

(297) آپ نے پاؤں کی انگلیوں میں خنصر کے ساتھ خلال..الخ
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

آپ نے پاؤں کی انگلیوں میں خنصر کے ساتھ خلال کے بارے میں فرمایا تھا کیا یہ حدیث ابن لہیعہ کی وجہ سے ضعیف ہے؟  اس سلسلے میں گزارش ہے کہ تقدمۃ الجرح والتعدیل : ۳۱ میں امام ابن ابی حاتم  رحمہ الله نے اور انہی کے طریق سے امام بیہقی  رحمہ الله نے السنن الکبریٰ ۱؍۷۶،۷۷ میں یہ حدیث ذکر کی ہے اس میں اللیث بن سعد رضی اللہ عنہ اور عمرو بن الحارث نے اس کی متابعت کر رکھی ہے اسے امام مالک  رحمہ الله نے حسن قرار دیا ہے۔

اور امام ابن القطان  رحمہ اللهنے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے۔(التلخیص الحبیر :۱؍۹۴(۱۰۰) النکت انظراف:۸؍۳۷۶) علامہ البانی نے بھی اس حدیث کو صحیح کہا ہے۔(صحیح ابی داؤد ، صحیح ابن ماجہ ، الروض وغیرہ) لہٰذا آپ اپنی تحقیق سے آگاہ کریں۔          (ابو الحسن مبشر ربانی ، سکیم موڑ ، لاہور)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جناب کا مکتوب گرامی موصول ہوا۔ تخلیل بالخنصر کے سلسلہ میں جن حوالہ جات کی طرف آپ نے توجہ دلائی ان سے بعض کی طرف مراجعت کی تو انہیں درست پایا چنانچہ اس فقیر الی اللہ الغنی نے مستور دبن شداد رضی اللہ عنہ کی اس حدیث کو آج سے صحیح تسلیم کر لیا ہے اور اپنی پہلی تحقیق ( تضعیف بوجہ ابن لہیعہ ) سے رجوع کر لیا ہے ۔ دل کی گہرائیوں سے آپ کے علم و عمل میں اضافہ و برکت کی دعائیں نکلیں۔

(اللھم زد عبدک الربانی علماً نافعاً ، وعملاً متقبلاً وعمراً مبارکاً ، ورزقاً کثیراً طیباً ، ووفقنا وإیاہ لما تحب و ترضی)

کئی دنوں سے ارادہ بنا رہا تھا کہ ضربِ حدیدی ( جو رفع الیدین کے موضوع پر آپ کی بہترین کتاب ہے) میں ایک بات کی طرف توجہ دلاؤں کہ آپ کا یہ مکتوب موصول ہو گیا تو فرصت کو غنیمت جان کر لکھ رہا ہوں محسوس نہ فرمائیں۔

آپ ضرب حدیدی کے صفحہ ۳۷ پر لکھتے ہیں: ((وَإِذَا رَفَعَ رَأسَہٗ مِنَ السُّجُوْدِ أَیْضًا رَفَعَ یَدَیْہِ)) ’’جب سجدوں سے سر اُٹھالے ( دو رکعتوں میں تشہد کے بعد) تو رفع الیدین کرے اس لیے کہ ’’السجود‘‘  کا لفظ  دو سے زائد سجدوں پر دلالت کرتا ہے۔‘‘

عبارت سے پتہ چلتا ہے کہ’’السجود‘‘ کو سجدہ کی جمع سمجھ لیا گیا ہے جبکہ ’’السجود‘‘  سجدہ کی جمع نہیں البتہ ساجد کی جمع ہے ۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: {وَطَھِّرْ بَیْتِیَ لِلْطَّآئِفِیْنَ وَالْعَاکِفِیْنَ وَالرُّکَّعِ السُّجُوْد}[الحج:۲۶] [’’ اور میرے گھر کو طواف کرنے والوں ، قیام کرنے والوں اور رکوع و سجود کرنے والوں کے لیے صاف و ستھرا رکھنا ۔‘‘]مگر اس حدیث میں جمع مقصود نہیں ۔ واللہ اعلم۔          ۲۸؍۱؍۱۴۲۲ھ

 

فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 04

تبصرے