سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(265) نماز کے بعد انفرادی و اجتماعی دعا مشروع و مجور ہے؟

  • 4696
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 1207

سوال

(265) نماز کے بعد انفرادی و اجتماعی دعا مشروع و مجور ہے؟
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

الف: صحیح مسلم ، باب صلوٰۃ الکسوف میں حدیث عائشہ  رضی اللہ عنہما کے الفاظ: (( ثم (ای بعد الخطبۃ) رفع یدیہ فقال: اللھم ھل بلغت )) اور ابونعیم کی روایت عن ثابت البنانی:(( قال ذکر انس ابن

مالک وسبعین رجلا من انصار الحدیث وفیہ فما رایت رسول اللّٰہ  صلی الله علیہ وسلم کلما صلی الفداۃ رفع یدیہ یدعو علیھم …)) [حلیۃ الاولیاء للحافظ ابونعیم الاصبھانیؒ ۱؍۱۲۳

وقال: محب اللہ شاہ راشدی: ھذا حسن حدیث۔ سے علامہ محب اللہ شاہ راشدیؒ مستدل ہیں کہ نماز کے بعد انفرادی و اجتماعی دعا مشروع و مجور ہے۔ آپ تبصرہ ووضاحت فرمائیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

صحیح مسلم کی اس صلاۃ کسوف کے بعد خطبہ میں ہاتھ اٹھانے والی حدیث سے فرض نمازوں کے بعد دعاء میں ہاتھ اٹھانے پر استدلال درست نہیں۔ أولا تو اس لیے کہ وہ نماز گرہن کے متعلق ہے اور نماز گرہن میں کئی چیزیں ایسی ہیں، جو دوسری نمازوں میں نہیں۔ ثانیاً اس لیے کہ یہ ہاتھ اٹھانا خطبہ میں ہے نہ کہ دعاء میں چنانچہ رسول اللہ  صلی الله علیہ وسلم کے الفاظ ہی (( اَللھم ھل بلغت ))اس بات پر دلالت کررہے ہیں۔ ثالثاً اس استدلال کا تقاضا ہے کہ فرض نمازوں کے بعد خطبہ بھی دیا جائے اور اس خطبہ میں ہاتھ اٹھاکر (( اللھم ھل بلغت ))  بھی کہا جائے، مگر یہ استدلال کرنے والے بھی ایسا نہیں کرتے ، آخر کیوں؟

آپ کی پیش کردہ حلیہ والی روایت کے متعلق مولانا محمد صفدر صاحب عثمانی حفظہ اللہ تبارک وتعالیٰ اپنی کتاب ’’فرض نمازوں کے بعد دعاء میں ہاتھ اٹھانے کی تحقیق ‘‘ کے صفحہ نمبر: ۳۳ اور نمبر ۳۴ میں لکھتے ہیں: ’’ اس روایت کو تقریب البغیہ ترتیب احادیث الحلیہ صفحہ ۲؍۳۴۷ میں دیکھا تو اس پر باب یوں باندھا ہے’’ قصۃ بئر معونۃ ‘‘ اور نمبر ۲ کے تحت حاشیہ میں تخریج میں ’’ أخرجہ البخاری نمبر:۴۰۹۰ ، ومسلم (۴۶۸۱) واللفظ للبخاری ‘‘ لکھا ہے۔ نیز ملاحظہ ہو ابن ہشام جلد نمبر۲ ، صفحہ :۱۶۹ تا ۱۷۹ ۔ زاد المعاد صفحہ ۲؍۱۰۹۔ بخاری ۲؍۵۶۸ ۔ ۵۶۹ ۔ ۵۸۵ اور الرحیق المختوم صفحہ ۳۹۸ وغیرہ۔‘‘

مزید لکھتے ہیں: ’’ یہ واقعہ ان ۷۰ قراء کے قتل پر پیش آیا ، جن کو بعض لوگوں نے دھوکہ سے لے جاکر راستہ میں شہید کردیا اور آنحضرت  صلی الله علیہ وسلم نے ان قاتلوں میں سے بعض کے نام لے کر ان پر نماز کے اندر رکوع کے بعد ہاتھ اٹھاکر بددعاء کی تھی۔ نیز ہاتھ اٹھانے کی صراحت مسند احمد ۳؍۱۳۷ اور سنن کبریٰ ، بیہقی ۲؍۲۱۱ میں ہے، لہٰذا اس کا نماز کے بعد ہاتھ اٹھانے سے کوئی تعلق نہیں۔‘‘                                                           ۲۲ ؍ ۱ ؍ ۱۴۲۴ھ

 

فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 04

تبصرے