سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(258) پہلے اور دوسرے تشہد میں یعنی دونوں تشہد میں دُرود پڑھنا لازمی ہے؟

  • 4689
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-02
  • مشاہدات : 1703

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

 ہمارے ہاں ایک مولانا ہیں، جن سے میں نے نماز کے تشہد میں دُرود پڑھنے کے متعلق پوچھا تو انہوں نے فرمایا کہ پہلے اور دوسرے تشہد میں یعنی دونوں تشہد میں دُرود پڑھنا لازمی ہے۔ اور اس کا حوالہ انہوں نے نسائی جلد اول کے باب نو رکعات وتر کیسے پڑھنے ہیں وہاں سے دکھلایا۔ میں نے عملاً ایسا کرنا شروع کردیا، مگر چند ایام کے بعد دوسرے مولانا نے فرمایا کہ پہلے تشہد میں تو دُرود نہیں پڑھنا چاہیے، دلیل کے مطالبے پر انہوں نے مسند احمد کا حوالہ دیا اور وہ حدیث والا صفحہ فوٹو کاپی مجھے دے دیا۔ اب مجھے نہیں علم کہ وہ حدیث صحیح ہے یا ضعیف۔ اس حدیث میں عبداللہ بن مسعود  رضی اللہ عنہ نے تشہد کو بیان کیا ہے۔

           آپ برائے مہربانی فرماکر بتائیں کہ آیا یہ حدیث درست ہے یا صحیح ہے ، یا پھر ضعیف ہے اور اس مسئلہ کا صحیح حل لکھ کر جلد از جلد روانہ کریں۔ میں مسند احمد کا عبداللہ بن مسعود  رضی اللہ عنہ والی حدیث کی فوٹو کاپی والا صفحہ بھی آپ کو بھیج رہا ہوں۔ آپ اس کی صحت کے متعلق بھی ضرور تحریر فرمائیں۔

((عن عبداللّٰہ بن مسعود ، قال: عَلَّمنی رسولُ اللّٰہ  صلی الله علیہ وسلم التَشَھُّد فی وسَطِ الصلاۃِ وفی آخرھا۔ فکُنَّا نَحْفَظُ عن عبداللّٰہ حین أخبرنا أن رسول اللّٰہ  صلی الله علیہ وسلم  علَّمہ إِیَّاہ ، قال: فکان یقول إذا جَلَسَ فی وَسْطِ الصَّلاۃِ وفِی آخِرِھَا عَلی وَرِکِہ الیُسْری:’’ اَلتَّحِیَّاتُ لِلّٰہِ وَالصَّلَوٰاتُ وَالطَّیِّبَاتُ السَّلاَمُ عَلَیْکَ اَیُّھَا النَّبِیُّ ، وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ وَبَرَکَاتُہٗ ، اَلسَّلاَمُ عَلَیْنَا وَعَلَی عِبَادِ اللّٰہِ الصَّالِحِیْنَ ، أَشْھَدُ أَنْ لاَّ اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدً عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُہٗ ‘‘ قال: ثم إن کَانَ فِیْ وَسْطِ الصلاۃ نَھَضَ ، حین یَفْرُغَ مِنْ تَشَھُّدِہِ ، وَإنْ کَانَ فِیْ آخِرِھا، دَعَا بعد تَشہُّدِہِ بِمَا شَائَ اللّٰہ أن یَدْعُو، ثم یُسَلِّمُ ))[صحیح ، وھذا إسنادہ حسن من أجل ابن إسحاق ـ وھو محمد ـ وقد صرح بالتحدیث ، فانتفت شبھۃ تدلیسہ ، وباقی رجالہ ثقات رجال الشیخین۔ یعقوب: ھو ابن ابراھیم بن سعد بن ابراہیم بن عبدالرحمن بن عوف وأخرجہ ابن خزیمۃ (۷۰۲) و (۷۰۸) والطحاوی فی شرح معانی الآثار: ۱؍۲۶۲ من طریق ابن اسحاق ، بھذا الإسناد وقد سلف برقم (۳۶۶۲) من طریق الأعمش ، عن شقیق ، عن ابن مسعود]

                                                                            (محمد اسلم قاضی بن محمد انور قاضی، سیالکوٹ)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

آپ نے مسند امام احمد رحمہ اللہ تعالیٰ کے حوالہ سے عبداللہ بن مسعود  رضی اللہ عنہ والی حدیث کی فوٹو کاپی ارسال فرمائی۔ تو اس میں یہ الفاظ آئے ہیں: (( فَکُنَّا نَحْفَظُ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ حِیْنَ أَخْبَرَنَا أَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلَّمَہُ إِیَّاہُ )) اہل علم جانتے ہیں کہ یہ اسود بن یزید نخعی رحمہ اللہ کا کلام ہے، اس کے بعد الفاظ ہیں: (( قَالَ: فَکَانَ یَقُوْلُ اِذَا جَلَسَ الخ ))  تو اس عبارت میں کان ، یقول اور جلس والی ضمیریں اگر عبداللہ بن مسعود  رضی اللہ عنہ کی طرف لوٹائی جائیں تو سند متصل بنے گی، روایت صحیح ہوگی ، مگر موقوف ہونے کی بناء پر دین میں حجت و دلیل نہیں بن سکتی۔ اور اگر یہ ضمیریں رسول اللہ  صلی الله علیہ وسلم کی طرف لوٹائی جائیں تو روایت مرفوع ہوگی، مگر اسود بن یزید نخعی تابعی رحمہ اللہ کے رسول اللہ  صلی الله علیہ وسلم سے بیان کرنے کی بناء پر مرسل ہوگی اور مرسل روایت صحیح قول کے مطابق حجت نہیں ہوتی ، ضعیف و کمزور ہوتی ہے۔ تو دونوں صورتوں میں یہ روایت درمیانے قعدے میں دُرود نہ پڑھنے کی دلیل نہیں بنتی۔

صحیح ابن خزیمہ کی بطریق عبدالأعلیٰ اسی روایت سے پتہ چلتا ہے کہ مندرجہ بالا دو تفسیروں میں سے پہلی تفسیر درست ہے اور یہ روایت موقوف ہے۔ چنانچہ صحیح ابن خزیمہ کی بطریق عبدالأعلی روایت کے الفاظ ہیں: (( عَنْ أَبِیْہِ أَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ مَسْعُوْدِ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ  صلی الله علیہ وسلم عَلَّمَہُ التَّشَھُّدَ فِیْ الصَّلاَۃِ قَالَ: کُنَّا نَحْفَظُہُ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مَسْعُوْدٍ کَمَا نَحْفَظُ حُرُوْفَ القُرْآنِ الوَاوَ وَالاَلِفَ ، فَإِذَا جَلَسَ عَلَی وَرِکِہِ الیُسْرَی قَالَ: اَلتَّحِیَّاتُ الخ )) [۱ ؍ ۳۴۸ ؍ ۷۰۲]

          پھر اس روایت کو درمیانے قعدے میں دُرود نہ پڑھنے کی دلیل بنایا جائے ، تو یہ آخری قعدے میں دُرود نہ پڑھنے کی بھی دلیل بنے گی، کیونکہ اس کے آخر میں یہ عبارت بھی موجود ہے: (( وَإِنْ کَانَ فِیْ آخِرِھَا دَعَابَعْدَ تَشَھُّدِہِ بِمَا شَآئَ اللّٰہُ أَنْ یَّدْعُوَ ثُمَّ یُسَلِّمُ )) واللہ اعلم۔

[احادیث میں دُرود کی بڑی فضیلت وارد ہے۔ نماز میں اس کا پڑھناواجب ہے یا سنت؟ جمہور علمائے کرام اسے سنت سمجھتے ہیں۔ اور امام شافعی اور بہت سے علماء واجب۔ ان کے نزدیک پہلے تشہد میں بھی دُرود پڑھنے کی وہی حیثیت ہے، جو آخری تشہد میں پڑھنے کی ہے۔ تاہم اس سے یہ واضح ہے کہ پہلے تشہد میں دُرود پڑھنا یقینا مستحب عمل ہے۔ اس کے لیے مختصر دلائل ملاحظہ فرمائیں۔ ایک دلیل یہ ہے کہ مسند احمد میں صحیح سند سے مروی ہے کہ ایک شخص نے نبی  صلی الله علیہ وسلم سے سوال کیا یا رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم1 آپ پر سلام کس طرح پڑھنا ہے؟ یہ تو ہم نے جان لیا (کہ ہم تشہد میں (( اَلسَّلاَمُ عَلَیْکَ ))پڑھتے ہیں۔) لیکن جب ہم نماز میں ہوں تو آپؐ پر درود کس طرح پڑھیں؟ تو آپؐ نے درودِ ابراہیمی کی تلقین فرمائی۔ [الفتح الربانی ، ج:۴ ، ص: ۲۰ ، ۲۱] مسند احمد کے علاوہ یہ روایت صحیح ابن حبان، سنن کبریٰ ، بیہقی ، مستدرک حاکم ،ابن خزیمہ میں بھی ہے۔ اس میں صراحت ہے کہ جس طرح سلام نماز میں پڑھا جاتا ہے۔ یعنی تشہد میں اسی طرح یہ سوال بھی نماز کے اندر درود پڑھنے سے متعلق تھا؛ نبی  صلی الله علیہ وسلم نے درود ابراہیمی پڑھنے کاحکم فرمایا۔ جس سے معلوم ہوا کہ نماز میں سلام کے ساتھ درود بھی پڑھنا چاہیے۔ اور اس کا مقام تشہد ہے۔ اور حدیث میں یہ عام ہے، ا سے پہلے یا دوسرے تشہد کے ساتھ خاص نہیں کیا گیا ہے۔ جس سے یہ استدلال کرنا صحیح ہے کہ (پہلے اور دوسرے) دونوں تشہد میں جہاں سلام پڑھا جاتا ہے۔ وہاں درود بھی پڑھا جائے۔ اور جن روایات میں تشہد اول کا بغیر درود کے ذکر ہے، انہیں سورۃ احزاب کی آیت: { صَلُّوْا عَلَیْہِ وَسَلِّمُوْا }کے نزول سے پہلے محمول کیا جائے گا۔

لیکن اس آیت کے نزول یعنی ۵ ہجری کے بعد جب نبی  صلی الله علیہ وسلم نے صحابہ کے استفسار پر درود کے الفاظ بھی بیان فرمادیئے تو اب نماز میں سلام کے ساتھ صلوٰۃ (درود شریف) کا پڑھنا بھی ضروری ہوگیا۔ چاہے وہ پہلا تشہد ہو یا دوسرا۔ اس کی ایک اور دلیل یہ ہے کہ حضرت عائشہ  رضی الله عنہ نے بیان فرمایا کہ نبی  صلی الله علیہ وسلم ( بعض دفعہ) رات کو ۹ رکعات ادا فرماتے، آٹھویں رکعت میں تشہد بیٹھتے تو اس میں اپنے رب سے دعا کرتے اور اس کے پیغمبر پر درود پڑھتے، پھر سلام پھیرے بغیر کھڑے ہوجاتے اور نویں رکعت پوری کرکے تشہد میں بیٹھتے تو اپنے رب سے دعا کرتے اور اس کے پیغمبر پر درود پڑھتے اور پھر دعا کرتے، پھر سلام پھیر دیتے۔ 1اس میں بالکل صراحت ہے کہ نبی  صلی الله علیہ وسلم نے اپنی رات کی نماز میں پہلے اور آخری دونوں تشہد میں درود پڑھا ہے۔ یہ اگرچہ نفلی نماز کا واقعہ ہے۔ لیکن مذکورہ عمومی دلائل کی آپؐ کے اس عمل سے تائید ہوجاتی ہے۔ اس لیے اسے صرف نفلی نماز تک محدود کر دینا صحیح نہیں ہوگا۔ 2

اگر کوئی شخص تشہد کے بعد دعا کرنا چاہے تو بھی جائز ہے۔ نبی  صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ جب تم دو رکعت پر بیٹھو تو التحیات کے بعد جو دعا زیادہ پسند ہو وہ کرو۔‘‘ 3

اور دعا سے پہلے درود پڑھنا چاہیے۔ رسول اللہ  صلی الله علیہ وسلم نے سنا ایک آدمی نماز میں دعا کررہا تھا۔ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ اس نے جلدی کی نماز میں پہلے اللہ کی تعریف کرو، پھر نبی  صلی الله علیہ وسلم پر درود بھیجو، پھر دعا کرو۔‘‘ 4

لہٰذا درمیانی تشہد میں تشہد کے بعد درود اور دعا بھی کی جاسکتی ہے۔ [نمازِ نبویؐ ۱۹۲، ۱۹۳ ، ڈاکٹر سید شفیق الرحمن]

صحابہ کرام f نے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ  صلی الله علیہ وسلم ہم لوگوں نے … تشہد میں … آپ صلی الله علیہ وسلم پر سلام بھیجنے کا طریقہ تو جان لیا، مگر آپ صلی الله علیہ وسلم یہ بتائیں کہ ہم آپ صلی الله علیہ وسلم پر درود کس طرح بھیجیں؟ تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے پہلے یا دوسرے تشہد کی قید کے بغیر ارشاد فرمایا کہ تم لوگ ’’ اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّدٍ …‘‘ [الحدیث] کہا کرو۔ پس اس حدیث میں پہلے تشہد میں بھی آپ صلی الله علیہ وسلم پر درود پڑھنے مشروعیت پر دلیل موجود ہے، امام شافعی  رحمہ اللهکا یہی مذہب ہے، انہوں نے کتاب الام میں اس کی صراحت کی ہے۔ اور امام نووی  رحمہ اللهنے مجموعہ (۳؍۴۶۰) میں لکھا ہے کہ شافعیہ کے یہاں یہی صحیح ہے۔ اور روضہ (۱؍۲۶۳) میں اسی کو اظہر قرار دیا ہے، اور ابن رجب نے طبقات الحنابلہ (۱؍۲۸۰) میں اسے وزیر ابن ہبیرہ حنبلی کا مذہب مختار بتایاہے، اور ابن رجب نے خود بھی اس سے اپنی رضا کا اظہار کیا ہے۔ تشہد میں نبی  صلی الله علیہ وسلم پر درود پڑھنے کے بارے میں بہت سی حدیثیں آئی ہیں، مگر ان میں سے کسی ایک حدیث میں بھی درود کے دوسرے تشہد کے ساتھ خاص ہونے کا ذکر نہیں، بلکہ ساری حدیثیں عام ہیں۔ جو دونوں تشہد کو شامل ہیں۔ پہلے تشہد میں درود پڑھنے سے روکنے والوں کے پاس کوئی ایسی صحیح دلیل نہیں ہے۔ جو حجت بن سکے، اسی طرح جو لوگ تشہد اول میں نبی صلی الله علیہ وسلم پر درود پڑھتے وقت ’’ اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّدٍ ‘‘سے زیادہ کچھ کہنا مکروہ سمجھتے ہیں ان کے پاس بھی سنت رسول صلی الله علیہ وسلم سے کوئی دلیل نہیں، بلکہ ہم تو کہتے ہیں کہ جس نے صرف ’’ اللھم صل علی محمد ‘‘کہنے پر اکتفا کیا اس نے نبی  صلی الله علیہ وسلم کے فرمان سابق (( قُوْلُوْا: اللھمّ صلی علی محمد وعلی آل محمد… الخ )) کی بجا آوری نہیں کی۔1                                   ۲۴ ؍ ۱ ؍ ۱۴۲۲ھ

1        السنن الکبریٰ ، للبیہقی ، ج : ۲ ، ص: ۷۰۴ ، طبع جدید سنن نسائی مع التعلیقات السلفیہ ، کتاب قیام اللیل ، ج:۱ ، ص: ۲۰۲ ، مزید ملاحظہ ہو: صفۃ صلوٰۃ النبی  صلی الله علیہ وسلم للالبانی ، ص:۱۴۵

2 تفسیر احسن البیان ، سورۃ الاحزاب آیت ۵۶ کا حاشیہ

3 نسائی ؍ کتاب التطبیق ؍ باب کیف التشہد الاول ، حدیث:۱۱۶۳

4ابو داؤد ؍ ابواب الوتر ؍ باب الدعاء حدیث: ۱۴۸۱  اسے حاکم اور ذہبی نے صحیح کہا ہے۔

1 صفۃ صلاۃ النبی اردو محمد ناصر الدین البانی ، ص:۲۲۹

 

فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 04

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ