ہمارے ایک دوست نے کہا کہ رکوع کے بعد قومہ قیام ہے۔ اس لیے رکوع کے بعد ہاتھ باندھنے چاہئیں؟ آپ وضاحت فرمائیں۔ (محمد سلیم بٹ)
قومہ قیام ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں، مگر جس قیام میں رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم ہاتھ باندھتے تھے ، وہ قیام قبل الرکوع ہے۔ مسند احمد میں ہے: (( عَنْ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ الْحَضْرَمِیِّ قَالَ : اَتَیْتُ النَّبِیَّ صلی الله علیہ وسلم فَقُلْتُ: لَاَنْظُرَنَّ کَیْفَ یُصَلِّیْ قَالَ: فَاسْتَقْبَلَ الْقِبْلَۃَ ، فَکَبَّرَ ، وَرَفَعَ یَدَیْہِ حَتّٰی کَانَتَا حَذْوَ مَنْکِبَیْہِ قَالَ: ثُمَّ اَخَذَ شِمَالَہُ بِیَمِیْنِہٖ قَالَ: فَلَمَّا اَرَادَ اَنْ یَرْکَعَ رَفَعَ یَدَیْہِ حَتَّی کَانَتَا حَذْوَ مَنْکِبَیہِ )) 1 [ ’’ وائل بن حجر حضرمی سے ہے کہ میں نبی صلی الله علیہ وسلم کے پاس آیا اور میں نے کہا کہ میں رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کی نماز کو دیکھوں گا کیسے پڑھتے ہیں؟ آپ صلی الله علیہ وسلم نے قبلہ کی طرف منہ کیا ، اللہ اکبر کہا اور کندھوں کے برابر ہاتھ اٹھائے، پھر بائیں ہاتھ کو دائیں سے پکڑا ، پھر جب رکوع کرنے کا اِرادہ کیا تو اپنے دونوں ہاتھوں کو کندھوں کے برابر اٹھایا۔ ‘‘ ]
ہاتھوں کو چھوڑنا نہ باندھنا اصل ہے، رکوع سے پہلے ہاتھ باندھنے کی دلیل آگئی ہے۔ اس لیے ہم رکوع سے پہلے ہاتھ باندھتے ہیں۔ رکوع کے بعد ہاتھ باندھنے کی دلیل نہیں آئی۔ اس لیے ہم رکوع کے بعد ہاتھ نہیں باندھتے۔ ۱۳ ؍ ۱۱ ؍ ۱۴۲۳ھ
1 الحدیث:۴؍۳۱۶