سنن ابوداؤد وابن ماجہ میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے: ’’ قال کان رسول اللہ ﷺ اذا تلا غیر المغضوب علیھم ولاالضالین قال آمین حتی یسمع من یلیلہ من الصف الاول۔‘‘ یعنی جب رسول اللہﷺ نماز میں غیر المغضوب علیھم ولا الضالین پڑھتے تو آمین کہتے پہلی صف والے یہ آواز سنتے تھے۔ اس سے ہمیشہ آمین پکار کر کہنے کا دو طرح پر ثبوت ہوا۔ اوّل یہ کہ کان دائمہ ہے۔ جیسا کہ سوال دوم کے جواب میں بیان کیا گیا۔ دوم مضمون اُس کا یہ ہے کہ جب آنحضرتﷺ نماز میں ’’ غیر المغضوب علیھم ولا الضالین‘‘ پڑھتے تو آمین اس قدر پکار کر کہتے کہ پہلی صف والے سن لیتے۔ یہ امر ظاہر ہے کہ ’’ ولا الضالین‘‘ نماز میں ہمیشہ پڑھتے تھے۔ پس یہی کیفیت آمین بالجہر کی ہوگی۔ کیوں کہ ایک کے بعد دوسرا ہے۔ و نیز ابن عباس سے مروی ہے۔ ’’ قال رسول اللّٰہ ﷺ ما حسدتکم الیھود علٰی شئی ما حسدتکم علٰی آمین فاکثروا من قولِ آمین۔‘‘ یعنی اے مسلمانوں یہودی لوگ جس قدر تم سے آمین کہنے پر حسد کرتے ہیں۔ اس قدر کسی شے پر نہیں کرتے۔ پس تم کثرت سے آمین کہو۔ یہ امر ظاہر ہے۔ کہ آمین کے سننے سے حسد ہوتا تھا۔ اور سننا جب ہوگا، جب کہنے والا پکار کر کہے گا۔ آج کل یہودی لوگ آمین بالجہر سے بالکل نہیں چڑھتے بلکہ اُن کو اس سے کچھ واسطہ نہیں۔ بلکہ ان کے چھوٹے بھائی جو کہ مسلمانوں میں شامل کیے جاتے ہیں۔ اس کی آواز خوشنما سے اس قدر نفرت کرتے ہیں جس قدر گالی سے۔ نعوذ باللہ۔ نسائی و مسند امام احمد ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔ ’’ اذا قال الامام غیر المغضوب علیھم ولا الضالین فقولوا آمین۔‘‘ یعنی فرمایا رسول اللہﷺ نے جب امام ولا الضالین کہے تو تم آمین کہو، یہ امر ظاہر ہے کہ امام کا ولا الضالین کہنا ہمیشہ ہے۔ پس اسی طرح مقتدی کا آمین کہنا ہمیشہ ہے۔ پس اسی طرح مقتدی کا آمین کہنا بھی ہمیشہ ہے۔ واللہ اعلم
ارغام المبتدعین ص ۶ مصنف مولانا ضیاء الرحمن صاحب عمر پوری
سوال:… حدیث قرأت خلف امام کا بعد نزول آیت: ’’ واذا قریٔ القرآن ، الخ‘‘ کے مروی ہونا۔
حدیث قرأۃ فاتحہ خلف امام بیشک بعد نزول آیت { اذا قری القرآن} کے مروی ہے کیوں کہ حدیث قرأۃ فاتحہ خلف الامام کی عبادہ بن صامت سے مروی ہے کیوں کہ حدیث کے رہنے والے ہیں۔ اور آیت { اِذَا قری القرآن }مکی ہے۔ جو قبل ہجرت کے نازل ہوئی۔ دیکھو تفسیر التقان وغیرہ اور حدیث قرأۃ فاتحہ خلف امام کو حضرتﷺ نے ہجرت کے مدینہ میں فرمایا۔ اور بعد انتقال سرورِ کائنات کے عبادہ کا عمل اس پر رہا۔ تو اب کوئی ذی علم اس میں شک نہ کرے گا کہ حدیث قرأۃ فاتحہ خلف امام کی بعد نزول آیت { اِذَا قری القرآن }کے مروی ہوئی ہے۔ علاوہ اس کے حدیث قراۃ خلف الامام خواہ بعد نزول آیہ کریمہ { اِذَا قری القرآن }کے مروی ہو۔ یا قبل۔ اس کے دونوں صورتوں میں کچھ قباحت نہیں۔ یعنی آیت مذکورہ قرأت فاتحہ خلف الامام کو ہرگز منع نہیں کرتی۔ کیوں کہ آیت سے پہلے یہ مذکور ہے کہ کفار و مشرکین رسول اللہﷺ سے معجزے اور نشانیاں طلب کرتے تھے۔ چوں کہ یہ امر آپ کے اختیار سے باہر اور حکم الٰہی پر موقوف تھا۔ اس لیے آپ سن کر خاموش ہوتے تب کافروں کی طرف سے تقاضا ہوتا جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
{ اذا لم تاتھم بایۃ قالوا لولا اجتبیتھا }
اس کے بعد فرمایا:
{ قل انما اتبع ما یوحی الی من ربی }
یعنی اے محمدﷺ تو کافروں کو کہہ دے کہ میں پروردگار کے حکم کی پیروی کرتا ہوں۔ اس کے سوا اور میرا کوئی کام نہیں۔ پھر فرمایا:
{ ہذا بصائر من ربکم وہدی ورحمۃ لقوم یوسمنون }
یعنی اگر تم کو معجزہ مطلوب ہے تو یہ قرآن تمہارے لیے معجزہ کافی ہے جو کہ ایمان والوں کے ہدایت و رحمت ہے۔ اس کے بعد فرمایا:
{ واذا قرء القرآن فاستمعوا الخ }
یعنی قرآن کا معجزہ ہونا جب معلوم ہو، جب تم اس کو دل لگا کر سنو جب وہ پڑھا جائے تو خاموش بیٹھے رہو۔ کفار کا یہ مقولہ تھا۔ ’’ لا تسمعوا لھذا القرآن والغوا فیہ ۔‘‘ پس اس کے جواب میں آیت مذکورہ کا ارشاد مناسب ہوا۔ اس تقریر سے واضح ہوا کہ آیہ { اِذَا قری القرآن }قرأۃ خلف الامام کے بارے میں نہیں، بلکہ اس کا محل دوسرا ہے جو کہ بیان کیا گیا۔ اگر قرأۃ کے مضمون پر آیت کو محمول کی جاوے گی۔ تو باہم آیتوں میں رابطہ نہ رہے گا۔
دوم اگر تسلیم کیا جاوے کہ آیۃ مذکورہ قرأۃ کے بارہ میں ہے، تب بھی ہمارے مدعا کے خلاف نہیں۔ کیوں کہ معنی آیت کے یہ ہیں کہ جب قرآن پڑھا جاوے۔ تو سنو اور آہستہ پڑھو یعنی اس قدر آواز سے نہ پڑھو، جس سے قاری کو خلجان واقع ہو۔ انصاف کے معنی آہستہ پڑھنے کے بھی مستعمل ہیں جیسا کہ حدیث بخاری وغیرہ میں مذکور ہے۔
سوم اس آیت سے صرف نماز جہری میں قرأۃ خلف الامام کی ممانعت ثابت ہوتی ہے۔ سریہ میں ہرگز نہیں ہوتی کیوں کہ سننے والا جب سنے گا۔ جب پڑھنے والا پکار کر پڑھے گا۔ پس حنفیہ کا یہ دعویٰ کہ نماز سریہ و جہریہ میں قرأۃ خلف الامام ممنوع ہے۔ اس آیت سے ثابت نہ ہوا۔ (ارغام المبتدعین ص ۷)