حدیثوں میں آیا ہے کہ رسول اللہﷺ نے اکثر خصوص نوازل و واقعات ہائلہ کے موقع پر نماز مغرب اور نماز فجر میں دعائے قنوت پڑھی ہے۔ اور حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ نے فرمایا تھا کہ حضور رسول اللہﷺ نے مجھ سے فرمایا کہ تم وتروں میں دعاء قنوت اللھم اہدنی فیمن ہدیت الخ پڑھا کرو لیکن وتروں میں پڑھنے کا تو احادیث صحیحہ میں ثبوت نہیں۔ البتہ نماز فجر میں ضرور ہے اور مغرب میں لیکن نماز فجر میں دعاء قنوت کا ثبوت ہونے کی بابت مولانا ثناء اللہ صاحب کا فتویٰ ہے۔ لیکن حال میں ایک مولوی صاحب نے اہل حدیث میں چھپوایا ہے کہ دعائے قنوت کا ثبوت نماز فجر میں صحیح حدیث سے نہیں بلکہ صرف مغرب میں ہے۔ لہٰذا مولانا ثناء اللہ صاحب خصوصاً اور مولانا ابو القاسم صاحب بنارسی و مولوی حمد اللہ صاحب دہلوی و مولوی محمد صاحب دہلوی سے التجا ہے کہ وہ بذریعہ اہل حدیث اعلان کردیں۔ کہ آیا نماز فجر و مغرب میں دعاء قنوت کا ثبوت صحیح حدیث سے ہے یا نہیں۔
صحیح بات یہ ہے کہ آنحضرتﷺ سے صبح کی نماز میں قنوت پڑھنا ثابت ہے۔ جس کے نسخ ہونے کی کوئی دلیل نہیں اور مصیبت عامہ کے وقت بعض صحابہ نے پانچوں نمازوں میں قنوت پڑھی۔ حنفیہ کرام بھی مصیبت عامہ کے وقت قنوت پڑھنے کی اجازت دیتے ہیں۔ جس صحابی نے اپنے بیٹے کو کہا تھا کہ یہ بدعت ہے۔ ایسا کہنا یا تو اس کے عدم علم پر مبنی ہے یا انہی معنی میں ہے جن معنی میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جماعت تراویح کو نعم البدعۃ ہذہ کہا تھا۔ یعنی ایسا مسنون فعل جو متروک ہونے کے بعد جاری ہو جائے۔ بہرحال اس عدم علم سے روایات مثبۃ غلط نہیں ہوسکتیں۔