ایک شخص سنن نسائی، ابوداؤد، ابن ماجہ، دارقطنی، مسند احمد، جزؤ رفع الیدین للبخاری رحمہ اللہ، طبرانی، بیہقی، صحیح ابی عوانۃ، ابو یعلی، ابن ابی شیبہ، مصنف عبدالرزاق اور تلخیص الجیر کی احادیث کی بنا پر سجدے میں جاتے ہوئے اور بین السجدتین (پہلے سجدہ سے سر اٹھاتے ہوئے) احیانا رفع الیدین کرتا ہے۔
(۱) مانعین مصیب ہیں یا عامل؟ (۲) کیا یہ حدیث صحیح ہے؟ (۳) اگر صحیح ہے تو اس زمانے میں متروک العمل کیوں ہوچکی ہے؟ (۴) اگر مجروح ہے تو سنن نسائی کی دو روایتوں (جو من طریق شعبہ اور سعید بن ابی عروبۃ مروی ہیں) ان پر کیا جرح ہے؟ مبہم جرح نہ ہو۔ اصل بنا انہی دو حدیثوں کو وہ شخص قرار دیتا ہے۔ باقی سب روایات ان ہی کی تائید میں ہیں۔ عام اس سے کہ صحاح سے یا ضعاف سے (۵) رفع یدین منسوخ ہوچکی ہے؟ (۶) اگر منسوخ ہوچکی ہے تو حدیث ناسخ مع الاسناد تحریر فرما دیں؟ (۷) اگر منسوخ نہیں ہوئی تو کون کون سے صحابہ اس پر عامل تھے؟ (۸) اور کون کون سے تابعین اس طرف گئے؟ (۹) کیا اس کے عامل کی اقتداء میں نماز درست ہو سکتی ہے؟ (۱۰) کیا اس کو مردہ سنت قرار دیا جاسکتا ہے؟ (۱۱) جو شخص اس کو زندہ کرے وہ من احی سنتی الحدیث کا مصداق ہوسکتا ہے؟ (۱۲) جو شخص اس فعل سے ناراض ہو کر اس کی مخالفت کرے، روافض وغیرہ فریق مبتدعہ کے ساتھ تشبیہہ دے۔ اس کا عند الشرع کیا حکم ہے؟ بینوا بالسنۃ والکتاب لا باقوالی العلماء ذوی الانتساب توجروا عند اللہ یوم الحساب (نوٹ) جواب از راہِ کرم بالترتیب نمبر دار مفصلاً مع حوالہ مکمل تحریر فرمائیں۔
المستفتی ابو حفص العثمانی الداجلی از ملتان۔ محلہ قدیر آباد جامع اہل حدیث ۲۱،۱، ۶۳
۱: عاملِ رفع بین السجود پر جو دائما یہ عمل رکھے مصیب نہیں ہے۔ کیوں کہ آنجنابﷺ سے اس پر ادامت نہیں ہے۔ وکان لا یفعل ذلک فی السجود اس کا مخطی ہونا ثابت کرتا ہے اور مطلقاً مانع جو ہو وہ بھی حق پر نہیں ہے۔
۲: حدیث ہذا صحیح ہے۔ متروک العمل نہیں ہے۔
۳: عامل بالسنۃ لوگ وقوتاً فوقتاً جن کو اللہ تعالیٰ نے یہ توفیق دی ہے۔ اس پر عمل کرتے ہیں۔
۴: جہاں تک مجھ کو معلوم ہے ان دونوں احادیث میں سے کسی حدیث پر کوئی جرح نہیں ہے۔
۵: اس حدیث کا کوئی ناسخ اس وقت تک نظر نہیں آیا۔
۶: اوپر جواب آچکا ہے۔
۷: بعض صحابہ نے اس پر عمل کیا ہے اور اسی طرح بعض تابعین نے بھی۔
۸: اوپر جواب آچکا ہے۔
۹: نماز ایسے امام کے پیچھے بلا نکیر جائز ہے۔
۱۰: مردہ سنت اسے کہتے ہیں جس کا کوئی عامل نہ ہو اور اس سنت پر عمل رہا ہو۔
۱۱: اوپر جواب آچکا ہے۔
۱۲ : اس فعل پر ناراض ہونے والا غالی ہے۔ اور محب سنت نظر نہیں آتا۔
ہذا واللہ اعلم محمد عبدالتواب بقلم خود تاب اللہ علیہ
جواب سوال (۱): عامل رفع الیدین عند ارادۃ السجد وبین السجدتین مصیب ہے۔ اور مانع مخطی لان المنع وقع علی الامر المشروع وکل منع وقع علی الامر المشروع فہو خطائ۔
جواب سوال (۲): بلا شک حدیث صحیح ہے۔ فتح الباری ملاحظہ ہو۔
جواب سوال (۳) : یہ حدیث تغافل یا تساہل کی وجہ سے متروک العمل ہوئی۔ ورنہ کوئی وجہ ترک کی نہیں۔
جواب سوال (۴) : اس حدیث میں سوائے تدلیس قتادہ کے اور کوئی جرح نہیں، لکن شعبہ کے قول سے یہ تدلیس مرتفع ہے۔ شعبہ کی عادت تھی کہ قتادہ سے مدلس حدیث کو روایت نہیں کرتا تھا۔
جواب سوال (۵) : یہ رفع یدین منسوخ نہیں بلکہ یہ نبیﷺ کا آخری عمر کا فعل ہے۔ کیونکہ اس کا راوی مالک بن الحویرث مدینہ طیبہ میں حضور علیہ السلام کی آخری عمر میں داخل ہوا ہے۔ اور اس کے بعد کوئی ایسی حدیث صریح نہیں آئی ہے جس سے نسخ ثابت ہوا۔ احتمالات سے نسخ ثابت نہیں ہوتا۔ بلکہ ابن عمر کا اس رفع کو قبول کرنا بعد روایت منع رفع الیدین عند السجود اول دلیل ہے کہ رفع بعد منع وارد ہوا ہے۔
جواب سوال (۶،۷،۸) : اس رفع یدین کے عاملِ صحابہ کرام سے ابن عمر وابن عباس اور تابعین سے طاؤس اور نافع اور عطاء مجھے معلوم ہیں۔ باقی صحابہ کی موافقت معلوم نہیں تو مخالفت بھی کہیں مروی نہیں۔ علاوہ بریں حدیث بنفسہٖ محتارج عمل عامل نہیں ہوتی۔
قال الشافعی فی الام فاذا کان الحدیث عن رسول اللّٰہ ﷺ لا مخالف لہ عنہ وکان یروی عمن دون رسول اللّٰہ ﷺ حدث یوافقہ لم یزدہ قوۃ و حدیث رسول اللّٰہ ﷺ مستغن بنفسہٖ وان کان یروی عمن دون رسول اللّٰہ ﷺ حدیث یخالفہ لم التفت الی ما خالفہ وحدیث رسول اللّٰہ ﷺ اولی ان یؤخذ بہٖ ۱ھ
جواب سوال (۹) : بلاشک اس رفع یدین کے عامل کے پیچھے اقتداء جائز ہے۔ اقتداء کو ناجائز کہنے والا جاہل اور اسرار شریعت سے محروم۔
جواب سوال (۱۰،۱۱) : بلاشبہ اس کا عامل محی السنۃ المتیۃ ہے اور مستحق اجر سو شہید کا ہے۔ کما ورد فی الحدیث۔
جواب سوال (۱۲) : جو شخص اس کی مخالفت کرے اور اس رفع یدین سے ناراض ہو اور اس کے عامل کو فرقہ مبتدعہ رافضہ سے تشبیہہ دے۔ باوجودیکہ اس کو یہ حدیث صحیح بھی معلوم ہے تو وہ شخص معاندِ حق ہے۔
وقد قال اللہ تعالیٰ ومن یشاقق الرسول من بعد ما تبین لہ الھدیٰ ویتبع غیر سبیل المومنین نولہ ما تولی ونصلہ جھنم وساء ت مصیرا۔
ھذا ما عندی واللّٰہ سبحانہ وتعالی اعلم بالصواب
حررہ محب السنۃ ابو محمد عبدالحق العمرے المحمدے عفی عنہ من ریاست بہاولپور
الصحیح انہ ﷺ قد فعلہ مرۃ وتر کہ اخریٰ فلا یقالی انہ بدعۃ بل ہو سنۃ
العبد: فیض الکریم سندھی از یار و شاہ سندھ ضلع نواب شاہ