امامت کا زیادہ مستحق کون شخص ہے؟ اندھے اور لنگڑے کا امام بنانا درست ہے یا نہیں اور ان کے پیچھے مقتدیوں کی نماز بغیر کراہت کے صحیح ہوتی ہے یا نہیں؟ صحیح حدیثوں سے جواب دیا جائے؟ بینوا توجروا۔
امامت کا سب سے زیادہ وہ شخص مستحق ہے جو کتاب و سنت کا زیادہ جاننے والا اور قرآن مجید کا اچھا پڑھنے والا اور ان پر عمل کرنے والا، متقی پرہیزگار، خوش خلق، شریف اور زیادہ عمر والا ہو۔ رسول اللہﷺنے فرمایا:
اجعلوائمتکم خیارکم فانھم وفدکم فیما بین کم وبین ربکم
یعنی اپنے بہترین آدمیوں کو امام بنایا کرو کیوں کہ وہ تمہارے اور خدا کے درمیان وکیل اور تمہارے نمائندے ہوتے ہیں۔ (دارقطنی)
ان سرکم ان تقبل صلٰوتکم فلیومکم خیارکم۔ (طبرانی)
یعنی اگر تم چاہتے ہو کہ تمہاری نمازیں قبول ہو تو بہترین (پرہیزگار) آدمیوں کو امام بنایا کرو۔
رسول اللہﷺ نے فرمایا:
یوم القوم اقرأھم لکتاب اللّٰہ فان کانوا فی القرأۃ سوائً فاعلم بالسنۃ فان کانوا فی السنۃ سواء فاقدم ھم سنًا۔
یعنی امامت کا زیادہ مستحق وہ شخص ہے جس کو سب سے زیادہ قرآن یاد ہو اور اگر قرآن مجید کے پڑھنے میں سب برابر ہوں تو وہ شخص زیادہ حق دار ہے۔ جو سنت سے زیادہ واقفیت رکھتا ہو اور اگر کتاب و سنت میں سب برابر ہوں تو وہ شخص زیادہ مستحق ہے جو سب سے پہلے ہجرت کرکے آیا ہو، اور اگر ان سب باتوں میںسب برابر ہوں تو سب سے زیادہ عمر والا ہے علی الترتیب۔ (رواہ مسلم و نیل الاوطار ص۷۱۵،جلد۳)
جواب(۲):… اگر اندھے میں مذکورہ باتیں سب موجود ہیں اور طہارت و صفائی کا محتاط ہے تو اندھے کو امام بنایا جاسکتا ہے۔ اور اس کے پیچھے نماز بلا کراہت درست ہے۔ رسول اللہﷺ کے زمانہ میں حضرت عبداللہ ابن ام مکتوم اور عتبان ابن مالک امام بن کر نماز پڑھایا کرتے تھے اور یہ دونوں نابینا تھے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:
ان النبی ﷺ استخلف ابن ام مکتومٍ علی المدینۃ مرتین یصلی بھم وھو اعمٰی۔ (احمد ابوداؤد)
حضرت محمود ابن ربیع رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔ ان عتبان بن مالک کان یؤم قومہ وھو اعمٰی۔ الٰی اخرہٖ (بخاری) ان حدیثوں سے معلوم ہوتا ہے کہ اندھے کو امام بناتا درست ہے۔ ’’وہواعمٰی‘‘ کے تحت امام شوکانی نیل الاوطار ص ۱۶۱ جلد ۳ میں فرماتے ہیں:
فیہ جواز امامۃ الاعمٰی وقد صرح ابو اسحاق المروزی والغزالی بان امامۃ الاعمٰی افضل من امام البصیر لانہ اکثر خشوعًا من البصیر لمافی البصیر شغل القلب المبصرات۔
جواب(۳):… اگر اندھے میں استحقاق امامت کی حسب بیان حدیث مذکور علی الترتیب تمام باتیں پائی جاتی ہیں اور وہ ارکان صلوٰۃ بمقدار فرض ادا کرلیتا ہو تو اس کی امامت درست ہے اور مقتدیوں کی نماز بلا کراہت صحیح ہے۔ کیوں کہ فطری و قدرتی طور پر معذور ہے۔ قرآن مجید میں ہے: لیس علی الاعمٰی حرج ولا علی الاعرج حرجٌ (نور) مجبوری کے حالات میں امام جالس کے پیچھے اقتداء درست ہے تو اعرج (لنگڑے) کے پیچھے بھی اقتداء درست ہوگی۔ ایک دفعہ رسول اللہﷺ کے قدم مبارک میں موچ آگئی تھی جس سے آپﷺ نے بیٹھ کر نماز پڑھائی اور آپ نے فرمایا صلوا کما رأیتمونی اصلی (بخاری) یعنی جس طرح تم مجھے نماز پڑھتے ہوئے دیکھتے ہو تم بھی اسی طرح پڑھ لیاکرو۔
اگر یہ اعرج بعض جسمانی کمزوریوں کی وجہ سے اپنی کہنیوں کو سجدہ کی حالت میںسہارا لینے کے لیے آپ نے گھٹنوں سے ملا دیتا ہے۔ تب بھی نماز درست ہو جاتی ہے کیوں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا ہے: استعینوا بالرکب۔ (ترمذی) واللہ اعلم بالصواب مولانا عبدالسلام بستوی دہلی اخبار اہل حدیث دہلی۔ (یکم جولائی ۱۹۵۹ئ)