بدن پر کپڑے ہوتے ہوئے سر پر سے ٹوپی یا پگڑی اُتار کر رکھ دینی اور کوئی عذر بھی نہ ہو اورہمیشہ اس طرح نماز پڑھنا، اگرچہ فرض نماز باجماعت مسجد میں ہو، اس کے لیے شرعاً کیا حکم ہے؟ کیا اس طرح نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام یا صحابہ رضی اللہ عنہم سے ثبوت ملتا ہے؟ اگر ملتا ہے تو عبارت مع صفحہ تحریر فرما دیں۔ (۲) ننگے سر نماز پڑھنی افضل ہے یاسر ڈھانک کر اگر سر ڈھانک کر نماز پڑھنی افضل ہے تو اس کی دلیل پیش فرمائیے گا؟ (عبداللہ خطیب جامع مسجد اہل حدیث ڈیرہ غازی خاں)
متذکرہ صدر سوال پر تین وجوہ سے غور کیا جاسکتا ہے۔ (۱) مطلق جواز اور اباحت کے لحاظ سے (۲) افضلیت یعنی آنحضرت اور صحابہ کے عام عمل کے لحاظ سے (۳) حرمت اور عدم جواز کے لحاظ سے۔
نماز میں ستر مغلظ (شرمگاہ) کا ڈھانپنا بالاتفاق ضروری ہے ان میں سے اگر کوئی حصہ ننگا ہو تو نماز نہیں ہوگی اور ان اعضاء کو ننگا رکھنا شرعاً حرام ہے۔ بہنر بن حکیم سے مروی ہے:
اِحْفَظْ عَوْرَتَکَ اَلاَّ مِنْ زوجَتِکَ اَوْمَا مَلکَتْ یَمیْنُکَ۔
بیوی اور مملوکہ کے سوا اعضاء ستر دیکھنے کا کسی کو موقع نہ دے۔
(رواہ الخمسۃ الا النسائی)
شوکانی فرماتے ہیں:
والحق وجوب سترالعورۃ فی جمیع الاوقات الاوقت قضاء الحاجۃ واقضاء الرجل الٰی اھلہ اھ (نیل الاوطار ص۶۴،ج۲)
حد ستر میں اہلِ علم مختلف میں جمہور ناف سے گھٹنہ تک ڈھکنا ضروری سمجھتے ہیں۔ بعض صرف ران ڈھانپنا واجب سمجھتے ہیں۔ امام احمد اور امام مالک سے ایک روایت میں آیا ہے العورۃ القبل والدبر (نیل الاوطار ص۶۴،ج۲) غرض ستر کی جو حد بھی اہل علم کے نزدیک ہے اگر اسے ننگا رکھاجائے تو نماز نہیں ہوگی۔ اعضاء ستر کو ویسے بھی ننگا رکھنا درست نہیں۔نماز میں تو قطعاً حرام اور ناجائز ہوگا۔ سر چونکہ بالاتفاق اعضا ستر میں نہیں اس لیے اگر کسی وقت ننگے سر نماز پڑھی جائے تو نماز بالاتفاق جائز ہوگی۔ اس کے لیے نہ بحث کی ضرورت ہے نہ احادیث کی ٹٹول کی ضرورت۔ جس طرح کوئی پنڈلی، پیٹ، پشت وغیرہ اعضاء ننگے ہوں تو نماز جائز ہے۔ سر ننگے بھی درست ہے۔ لیکن اسے عادت نہیں بنانا چاہیے۔ امام اگر نماز کے بعد پاؤں آسمان کی طرف کرے یا مقتدی کوئی ایسی حرکت کریں، حدیث میں اس سے رکاوٹ ثابت نہیں ہوگی۔ لیکن عقل مند ایسا کرنے سے پرہیز کرے گا۔ ننگے سر کی عادت بھی قریباً اسی نوعیت کی ہے۔ جواز کے باوجود ایسی عادات عقل و فہم کے خلاف ہیں۔ عقل مند اور متدین آدمی کواس سے پرہیز کرنا چاہیے۔
آنحضرتﷺ، صحابہ کرام اور اہل علم کا طریق وہی ہے جو اب تک مساجد میں متوارث اور معمول بہا ہے۔ کوئی مرفوع حدیث صحیح میری نظر سے نہیںگزری جس سے اس عادت کا جواز ثابت ہو، خصوصاً باجماعت فرائض میں بلکہ عادت مبارک یہی تھی کہ پورے لباس سے نماز ادا فرماتے تھے۔
امام بخاری فرماتے ہیں:
باب وجوب الصلوٰۃ فیالثیاب وقول اللّٰہ تعالی خذو زینتکم عند کل مسجد ومن صلی ملتحفا فی ثوب واحد ویذکر عن سلمۃ بن الاکوع ان النبی ﷺ قال بزک ولو بشوکۃ فی اسنادہ نظر الخ۔ (صحیح بخاری مع فتح مطبوعہ مصر ص ۳۱۸، جلد۱)
امام بخاری کا مطلب یہی معلوم ہوتا ہے کہ وہ زینت کا مطلب یہ سمجھتے ہیں کہ اعضاء ستر ڈھانپنے کے علاوہ اچھے کپڑوں میں ادا کی جائے۔ عام ذہن کے لوگوں کو اس قسم کی احادیث سے غلطی لگی ہے کہ ایک کپڑے میں نماز کی جائے تو سر ننگا رہے گا۔ حالاں کہ ایک کپڑے کو اگر پوری طرح لپیٹا جائے تو سر ڈھکا جاسکتا ہے۔
اس مضمون کی احادیث ام ہانی، ابوہریرہ، جابر بن عبداللہ، سلمہ بن اکوع،عمر بن ابی سلمہ،طلق بن علی وغیرہ سے صحیح بخاری، سنن ابی داؤد وغیرہ دو ادین سنت میں موجود ہیں لیکن کسی میں سر ننگا رکھنے کا ذکر نہیں، خصوصاً جس میں عادت اور کثرتِ عمل ثابت ہو، پھر احادیث میںآنحضرتﷺ کے ارشاد سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ صورت یا تو صرف اظہار جواز کے لیے ہے یا کپڑوں کی کم یابی کی وجہ سے۔ ان حالات سے جواز یا اباحت تو ثابت ہوسکتی ہے۔ سنت یا استحباب ظاہر نہیں ہوتا۔ حضرت ابوہریرہ کی روایت میں ہے۔ او لکلکم ثوبان (ابوداؤد، ص۲۴۰)
طلق کی روایت میں ہے:
او کلکم یجدثوبین (ابوداؤد مع عون ص۲۴۱،۱)
کیا سب کو دو کپڑے میسر آسکتے ہیں۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اثر میں مزید تفصیل ملتی ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
قام رجل الی النبی ﷺ فسئلہ عن الصلوٰۃ فی الثوب الواحد فقال او کلکم یجدثوب بین ثم سئل رجل عمر فقال اذا وسع اللّٰہ فاوسعوا جمع رجل علیہ ثیابہ صلی رجل فی ازارٍ وردائٍ فی ازارٍ وقمیص فی ازارٍ وقبائٍ فی سراویل ورداٍ فی سراویل وقمیص فی سراویل وقبائٍ فی تبانٍ وقبائٍ فی تبانٍ وقمیص قال واحسبہ فی تبان ورداء (صحیح بخاریص۲۲۴)
حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے ایک آدمی نے ایک کپڑے میں نماز کے متعلق دریافت کیا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا! جب اللہ تعالیٰ وسعت دے تو نماز میں بھی وسعت سے کام لینا چاہیے اس کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حسب استطاعت نماز میںلباس کی مختلف قسموں کا ذکر فرمایا۔ حضرت عمر کا ارشاد حکم ہو یا صرف خبر اس میںکپڑوں کی قلت اور عدم استطاعت صراحتہً سمجھ میں آتی ہے اور یہ بھی ظاہر ہے کہ اگر پورے کپڑے میسر ہوسکیں اور کوئی مانع نہ ہو تو تکلف سے مسکنت کا اظہار نہیں کرنا چاہیے۔ ابن منیر فرماتے ہیں:
الصحیح انہ کلام فی معنٰی الشرط کانہ قال ان جمع رجل علیہ ثیابہ فحسن اھ (فتح ص۳۲۴،۱)
اگر ایک سے زائد کپڑے نماز میں استعمال کرے تو بہتر ہے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وفی ھذ الحدیث دلیل علی وجوب الصلوٰۃ فی الثیاب لما فیہ من ان الاقتصاد علی الثوب الواحد کان لضیق الحال وفیہ ان الصلوٰۃ فی الثونین افضل من الثوب الواحد وصرح القاضی عیاض نبفی الخلاف فی ذالک ۱ھ (فتح الباری ص۳۲۴،۱)
اس حدیث سے ثابت ہوا ہے کہ (مستطیع کے لیے) زیادہ کپڑوں میں نماز پڑھنا واجب ہے۔ کیوں کہ ایک کپڑے کی اجازت صرف ضیق کی وجہ سے تھی اور یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ نماز میں دو کپڑے استعمال کرنا افضل ہے۔ غرض کسی حدیث سے بھی بلا عذر ننگے سر نماز کو عادت اختیار کرنا ثابت نہیں، محض بے عملی یا بد عملی یا کس کی وجہ سے یہ رواج بڑھ رہا ہے۔ بلکہ جہلا تو اسے سنت سمجھنے لگے ہیں۔ العیاذ باللہ
اس کی تائید دوسری حدیث سے بھی ہوتی ہے۔ ابن عمر آنحضرتﷺ سے ذکر فرماتے ہیں۔ اذا صلی احدکم فلیا تزر ولیرتہ اھ (سنن کبریٰ ص۲۳۵،۱) نافع فرماتے ہیں عبداللہ بن عمر مرفوعاً فرماتے تھے اذا صلی احدکم فلیلبس ثوبیہ فان اللّٰہ عزوجل احق ان یرین لہٗ الخ (سنن کبریٰ) نافع فرماتے ہیں عبداللہ بن عمر نے مرفوعاً فرمایا نماز دو کپڑوں میں پڑھو۔ اللہ کی بارگاہ میں زینت سے حاضر ہونا زیادہ مناسبت ہے۔ نافع فرماتے ہیں میں ایک دن اونٹوں کی گھاس کے سلسلہ میں نماز سے پیچھے رہ گیا، عبداللہ بن عمر آئے تو میں ایک ہی کپڑے میں نماز پڑھ رہا تھا حضرت عبداللہ نے فرمایا کیا تمہارے پاس دو کپڑے نہیں؟ میں نے عرض کیا، دو ہی موجود ہیں آپ نے فرمایا : اریت لو بعثتک الی بعض اھل المدینۃ اکنت تذھب فی ثوب واحدٍ قلت لا قال فاللّٰہُ احق ان یتجمل لہٗ؟ الخ (ص۲۳۶،۱بیہقی سنن) اگر میں مدینہ میں کسی کے پاس تمہیں بھیجتا تو تم ایک کپڑے میں جاتے؟ میں نے عرض کیا نہیں فرمایا اللہ کی بارگاہ میں زینت سے حاضر ہونا زیادہ مناسب ہے۔ ان احادیث میں سر ڈھانپنے کی صراحت نہیں لیکن دو کپڑوں سے سر ڈھانپنے کا زیادہ امکان ہو جاتا ہے۔ کپڑا موجود ہو تو سر ننگے نماز ادا کرنا یا ضد سے ہوگا یا قلت عقل سے۔ نیز یہ ثابت ہوتا ہے کہ اچھے کپڑوں کے ساتھ تجمل سے نماز پڑھنا مستحب اور مسنون ہے۔ آیت خدوازینتکم کے مضمون سے بھی اسی سے وضاحت ہو جاتی ہے۔
ابوداؤد میں ایک اثر ہے۔ جس سے شاید کوئی کم سواد آدمی استدلال کرے۔ حدثنا عبداللہ بن محمد الزھری ثناسفیان بن عیینۃ قال رأیت شریکاً صلی بنا فی جنازۃ العصر فوضع قلنسوتہٗ بین یدیہ یعنی فی فریضۃٍ(ابوداؤد ص ۲۵۶، مع عون) یعنی شریک نے فرضوں کی نماز بوقت عصر ٹوپی اُتار کر پڑھی اور ٹوپی اپنے سامنے رکھی۔ ۱ھ اول تو یہ نہ مرفوع حدیث ہے نہ کسی صحابی کا اثر، دوم معلوم نہیں، یہ شریک کون بزرگ ہیںشریک بن عبداللہ نخعی تبع تابعی ہیں یا شریک بن عبداللہ بن ابی نمر تابعی۔ ان دونوں میںکم و بیش ضعف ہے۔ لیکن یہ ان کا عمل ہے جو کسی طرح بھی قابلِ حجت نہیں۔ سوم امام ابوداؤد نے اسے باب الحظ اذا لم یجد عصًا میں ذکر فرمایا ہے۔ جس سے ظاہر ہے کہ یہاں ضرورتاً سر ننگا رکھا گیا ہے کیوں کہ جب انہیں سترہ کے لیے کوئی چیز نہ ملی تو انہوں نے سترہ کا کام ٹوپی سے لے لیا۔ ضرورت اور عذر سے سر ننگا رکھا جائے تو اس میںبحث نہیں، بحث اس میںہے کہ فیشن اور عادت کے طور پر نماز میں سر ننگا رکھنا کہاں تک درست ہے؟ حافظ عینی نے شرح بخاری میں مختلف مذاہب کے ذکر میں تفصیل سے کام لیا ہے۔ ان کی بحث کا خلاصہ بھی یہی ہے کہ ایک کپڑے میں درست ہے لیکن جب وسعت ہو کپڑے میسر آسکیں تو پھر ایک پر اقتصار مستحسن نہیں۔ حافظ ابن قدامہ مقدسی فرماتے ہیں الفصل الثانی فی فضیلۃ وھو فضیلۃ وھو ان یصلی فی ثوبین او اکثر فانہ اذا بلغ فی الستریروی عن عمرؓ انہ قال اذا وسع اللّٰہ فاوسعوا۱ھ (ص ۶۲۱) مفتی ابن قدامہ مع الشرح یعنی فضیلت اس میں ہے کہ دو یا دو سے زیادہ کپڑوں میں نماز ادا کرے کیوں کہ اس میں ستر اور پر وہ زیادہ ہوگا۔ حضرت عمر کا ارشاد ہے۔ جب اللہ مال میں وسعت فرمائیں تو آدمی کو وسعت سے کام لینا چاہیے اس کے بعد تمیمی کا قول ذکر فرمایا ہے۔ الثوب الواحد یجزی والثوبان احسن والاربع اکمل قمص وسراویل وعمامۃ وازارٌ ۱ھ (ابن قدامہ ص۶۲۱،۱) ایک کپڑا جواز نماز کے لیے کافی ہے دو کپڑے بہتر ہیں چار ہوں تو نماز اور کامل ہوگی۔ قمیص، پاجامہ، پگڑی اور ازار۔ ان تمام گذارشات سے مقصد یہ ہے کہ سر ننگا رکھنے کی عادت اور بلا وجہ ایسا کرنا اچھا فعل نہیں۔ یہ عمل فیشن کے طور پر روز بروز بڑھ رہا ہے یہ اور بھی نامناسب ہے۔
آنحضرتﷺ کے زمانہ میں پگڑی کے متعلق تخیک کا رواج تھا یعنی پگڑی کا ایک لپیٹ گردن کے نیچے سے باندھتے تھے آج کی عربی پگڑیاں اور ہماری پگڑیاں اس وقت کی پگڑیوں سے وضع میں مختلف ہیں ایسی پگڑی کا اتارنا اور بھی مشکل معلوم ہوتا ہے۔ وللتفصیل وقت اخر۔
ویسے یہ مسئلہ کتابوں سے زیادہ عقل و فراست سے متعلق ہے۔ اگر اس جنس لطیف سے طبیعت محروم نہ ہو، تو ننگے سر نماز ویسے ہی مکروہ معلوم ہوتی ہے۔ ضرورت اور اضطرار کا باب اس سے الگ ہے۔ والسلام
یہی استفتاء مولانا سید داؤد غزنوی سے بھی کیا گیا تھا۔ مولانا محمد اسماعیل صاحب کے جواب موصول ہونے کے بعد انہوں نے مختصر جواب جو لکھا ہے وہ بھی ہدیہ قارئین کیا جاتا ہے۔ (الاعتصام)
اقول وباللہ التوفیق ننگے سر نماز پڑھنے کے متعلق میں نے طالب علمی کے زمانہ میں اپنے والد بزرگوار (حضرت الامام مولانا عبدالجبار الغزنوی نور اللہ مرقدہٗ) سے کہا تھا۔ انہوں نے اس کا مختصر مگر بڑا جامع جواب ارشاد فرمایا وہ عرض کیے دیتا ہوں۔ فرمایا کہ سر اعضاء ستر میں سے تو نہیں لیکن نماز میں سر ننگا رکھنے کے مسئلہ کو اس لحاظ سے نہیں بلکہ آداب نماز کے لحاظ سے دیکھنا چاہیے۔ اس کے بعد فرمایا کہ مرد کے کندھے بھی اعضاء ستر میں سے نہیں لیکن صحیح بخاری میں ہے:
لا یصلی احدکم فی الثوب الواحد لیس علٰی عاتقہ شیئٌ۔
یعنی ایک کپڑے میں کوئی نماز نہ پڑھے جب تک اس کے کندھے پر کوئی کپڑا نہ ہو۔
اس کے بعد فرمایا کہ مؤطاء اور فتح الباری دیکھ لو۔ مؤطا میں امام مالک فرماتے ہیں:
قال مالک احب الی ان یجعل الذی یصلی فی القمیص الواحد علی عاتقیہ ثوبا او عمامۃ قال الزرقانی لقولہ ﷺ لا یصلی احدکم فی الثوب الواحد لیس علی عاتقہ شیئٌ۔
کہ میرے نزدیک پسندیدہ چیز یہ ہے کہ جو شخص ایک کپڑے میں نماز پڑھے وہ اپنے دونوں کندھوں پر کپڑا ڈالے یا اپنے سر پر عمامہ باندھے۔ اس کی شرح میں زرقانی فرماتے ہیں کہ امام مالک رحمہ اللہ کا یہ فتویٰ اس حدیث کی بنا پر ہے جس میں آپ نے فرمایا کہ کوئی شخص ایک کپڑے میں نماز نہ پڑھے جب تک اس کے کندھے پر کپڑا نہ ہو۔
مؤطا امام مالک رحمہ اللہ کے پڑھانے والے امام مالک رحمہ اللہ کی اس اصطلاح سے واقف ہیں جب کسی مسئلہ کے متعلق وہ فرماتے ہیں ’’ احب الی‘‘ (میرے نزدیک پسندیدہ بات یہ ہے) اس سے مراد وجوب ہوتا ہے جس کی تصریح حافظ ابن عبدالبر اور دیگر شارحین مؤطا نے کی ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اس حدیث : لیس علی عاتقہ شیئٌ کے ذیل میں فرماتے ہیں۔ لیحصل الستر لجزئٍ من اعالی البدن وان کان لیس بعورۃ یعنی کندھوں کو کپڑے سے ڈھانکنے کا حکم اس لیے آپﷺ نے دیا تاکہ بدن کا اعلیٰ حصہ بھی نماز میں ڈھکا رہے اگرچہ وہ عورت یعنی اعضاء ستر میں سے نہیں ہے۔ زرقانی نے امام مالک کا ایک اور قول بھی نقل کیا ہے۔ جوسائل کے سوال کے جواب کے لیے کافی واضح ہے۔ فرماتے ہیں:
قال مالک فی المبسوط لیس من امر الناس ان یلبس الرجل الثوب الواحد فی الجماعت فکیف بالمسجد وقال تعالٰی خُذُوْا زِینَتَکُمْ عِنْدَ کُلِّ مَسْجِدٍ۔ (ص۲۸۸،ج۱)
یعنی امام مالک رحمہ اللہ نے مبسوط میں فرمایا کہ لوگوں کو اس کی اجازت نہیں دی جاسکتی کہ وہ ایک کپڑے میں نماز جماعت کے ساتھ پڑھیں چہ جائیکہ ان کو مسجد میں اجازت دی جائے کیوں کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ تم ہر نماز کے وقت لباس پہنا کرو۔
شیخ الاسلام ابن اتیمیہ رحمہ اللہ اختیارات میںفرماتے ہیں:
واللّٰہ تعالٰی امر بقدر زائد علی ستر العروۃ فی الصلوٰۃ وھو اخذ الزینتہ فقال خُذُوْا زِیْنَتَکُمْ کُلِّ مَسْجِدٍ۔ (ص۴۴)
یعنی اللہ تعالیٰ نے نماز کے لیے ستر عورۃ (اعضاء ستر کے ڈھانکنے) کے علاوہ ایک زائد حکم بھی دیا ہے۔ اور وہ ہے اچھا لباس پہننا۔
فرمایا اللہ تعالیٰ نے خُذُوْا زِیْنَتَکُمْ عِنقدَ کُلِّ مَسْجِدٍ۔ اس کی مزید تاکید حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اس قول سے بھی ہوتی ہے جسے صاحبِ مغنی نے حافظ عبدالبر سے نقل کیا ہے۔ کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے نافع کو دیکھا کہ ایک کپڑے میںنمازپڑھرہے تھے۔ فرمایا تم دوکپڑے نہیں پہن سکتے ہو؟ نافع نے عرض کیا، جی ہاں پہن سکتا ہوں۔ پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا اگر تمہیں محلہ میں کسی کے پاس بھیجا جائے تو تم ایک کپڑے میں جاؤ گے؟ نافع نے عرض کیا۔ ایسا تو نہیںکروں گا۔ اس پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: فاللہ احق ان یزین لہ او الناس ؟ قلت بل اللّٰہ (ص۶۲۱،ج۱) پس اللہ عزوجل اس کے زیادہ مستحق ہیں کہ اس کی حاضری کے لیے زینت کا لباس پہنا جائے یا لوگ اس کے مستحق ہیں؟ نافع نے عرض کیا نہیں حضور! اللہ ہی اس کے مستحق ہیں۔
ابتداء عہد اسلام کو چھوڑ کر جبکہ کپڑوںکی قلت تھی، اس کے بعد اس عاجز کی نظر سے کوئی ایسی روایت نہیں گزری جس میں بہ صراحت یہ مذکور ہو کہ نبیﷺ نے یا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے مسجد میں اور وہ بھی نماز باجماعت میں ننگے سر نماز پڑھی ہو۔ چہ جائیکہ معمول بنا لیا ہو۔ اس لیے اس بدرسم کو جو پھیل رہی ہے، بند کرنا چاہیے۔ اگر فیشن کی وجہ سے ننگے سر نمازپڑھی جائے تو نماز مکروہ ہوگی۔ اگر تعبد اور خضوع اور خشوع و عاجزی کے خیال سے پڑھی جائے تو یہ نصاریٰ کے ساتھ تشبہ ہوگا۔ اسلام میںننگے سر رہنا سوائے سوائے احرام کے، تعبد یا خشوع و خضوع کی علامت نہیں اور اگر کسل اور سستی کی وجہ سے ہے تو یہ منافقوں کی ایک خلقت سے تشابہ ہوگا۔ ولا یاتون الاوھم کسالٰی (نماز کو آتے ہیں تو سست اور کاہل ہو کر) غرض ہر لحاظ سے یہ ناپسندیدہ عمل ہے۔ فقط العبد المذنب الراجی لرحمۃ ربہ الودود سید محمد داؤد الغزنوی۔ ۲۹؍ جمادی الاولیٰ ۱۳۷۹ھ
(الاعتصام جلد ۱۱، ش ۱۸)