جوتا پہن کر مسجد میں نماز پڑھنا شریعت محمدی میںجائز ہے یا ناجائز؟
جوتا پاک تو مثل کپڑے کے ہے نماز بھی جائز ہے۔ ناپاک ہے تو بحکم خدا ’’فاخلع نعلیک‘‘ قابل پھینکنے کے ہے۔ غیر طاہر حالت میں جس کی دو صورتیںہیں ایک یہ کہ غیرمدبوغ چمڑہ کا جوتا ہو یہ تو ظاہر نہیں ہوسکتا اور ایسے ہی چمڑہ کا جوتا موسیٰ علیہ السلام کاتھا۔ جیسا کہ تفسیر(۱) سے معلوم ہوتاہے۔ دوسرے یہ کہ وباغت دیے ہوئے چمڑے کا جوتا ہو تو یہ بحکم اَیُّ اِھَابٍ دُبِغَ فَقَدْ طَھُرَ۔ بنفسہٖ پاک ہے خارجی نجاست مرئی سے ناپاک ہوتا ہے جس کے پاک کرنے کاطریقہ شریعت محمدی میں صرف صاف سوکھی زمین پر رگڑ (۲) لینا ہے۔ قال النبیﷺ اذا جاء احدکم المسجد فلینقلب نعلیہ ولینظر فیھما فان را ای خبثا فلیمسحہ فی الارض ثم لیصل فیھما (احمد و ابوداؤد)۔مسجد کے باہر جوتے کی تلی الٹ کر دیکھ لے اگر گندگی دیکھے تو زمین پر رگڑ لے اس کے بعد انہیں جوتوں کو پہنے ہوئے نماز پڑھ لے۔ آپ نے ’’فاخلع نعلیک‘‘ جوتے کو پھینک دے نہیں فرمایا اگر ایسا فرمان ہو تو مطلع فرمائیں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا: اِذا وَطِیَٔ اَحَدُکُمْ بِنَعْلِہٖ الاذٰی فَاِنَّ التّرابَ لَہٗ طَھُوْرٌجوتے میں اگر گندگی لگ جائے تو اس کو پاکی مٹی سے ہو جاتی ہے۔
حکیم عبدالرزاق از رنگون
(اخبار محمدی دہلی جلد ۶، ش ۱۴)
۱: تفسیری واقعات وہ حجت ہیں جو مرفوع صحیح سند سے ثابت ہوں، ورنہ حجت نہیں۔ ناپاک جوتے کو پیغمبر کی طرف منسوب کرنا بڑی جسارت ہے۔ ۱۲ علی محمد سعیدی
۲: زمین پر رگڑ لینا کافی ہے۔ لیکن رگڑنے کے بعد پانی سے دھو لینا افضل ہے۔ جیسا کہ ڈھیلوں سے استنجاء کرنا جائز اور کافی ہے۔ صفائی حاصل ہو جائے گی لیکن بعد میں پانی سے استنجاء کرنا افضل ہے۔ جیسا کہ حدیث اور فقہ سے واضح ہے۔ ۱۲ علی محمدسعیدی