جوتی پہن کر نماز پڑھنے کے متعلق سنن ابی داؤد میں جو احادیث مروی ہیں۔ ان کا کیا مطلب ہے کیا موجودہ دور میں بھی جبکہ مساجد پختہ بن چکی ہیں اور ان میں صفوں اور دریوں وغیرہ کا مکمل انتظام ہے۔ کوئی شخص پرانی جوتی پہن کر نماز ادا کرسکتا ہے اوراحادیث میںجورخصت یا حکم ہے وہ عرب کی گرمی اور مساجد وغیرہ کے فروش کے کچا ہونے کی وجہ سے تو نہ تھا۔ براہِ کرام اس مسئلہ پر مفصل روشنی ڈالیں اور اگر فقہ حنفی میںجوتا پہن کر نماز پڑھنے کی اجازت ہو تو وہ بھی بیان فرماویں تاکہ یہاں کا اختلاف ختم ہوسکے؟ (صوفی محمد اکرم لاہور)
جب جوتا طاہر ہو تو اس میں نماز درست ہے خواہ نیا ہو یا پرانا، حدیث میں ہے: اِذَا اجَائَ اَحَدُکُمْ الْمَسْجِدَ فَلْیَنْظُر فَاِنْ رأی فِیْ نَعْلَیْہِ قَذْرًا فَلْیَمْسَحْدُ ویُصلِّ فیہما۔ (ابوداؤد) جب کوئی تمہارا مسجد میں آئے چاہیے کہ غور کرلے۔ دیکھے اگر اپنے جوتے میں گندگی پائے تو رگڑ لے اور اس میں نماز پڑھے۔ زیر حدیث مرعاۃ میں ہے فِیْہِ دَلِیْلٌ عَلَی اِسْتِحْبَابِ الصَّلٰوۃِ فِی النِّعَالِ۔ اس حدیث میں دلیل ہے کہ جوتیوں سمیت نماز مستحب ہے۔ دوسری حدیث میں ہے اِذَا وَطِیَٔ اَحَدُکُمْ بِنَعْلِہٖ الْاٰذی فَاِنَّ التُّرَابَ لَہٗ طُھُوْرٌ۔ جب کسی کی جوتی کو گندگی لگ جائے اسے مٹی سے صاف کرلے۔ (مشکوٰۃ) ان احادیث سے ظاہر ہے کہ نبی اکرم ﷺ کا ارشاد گرامی مستعمل جوتے کے بارے میں ہے کیوں کہ آپ رگڑنے کا حکم فرما رہے ہیں۔ اگر نئے اور پرانے میں کوئی تفریق ہوتی تو بیان فرماتے فان تاخیر البیان عن وقت الحاجۃ لایجوز جن اشیاء کا ذکر صورت مسئولہ میں ہے یہ عارضی غیراعتباری ہیں۔ ان سے احکام شرع نہیں بدلا کرتے جہاں تک فقہ حنفی سے اس مسئلے کا تعلق ہے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ متقدمین حنفیہ نہ صرف اس کے جواز کے قائل تھے بلکہ بعض نے تو صلوٰۃ فی النعل کو افضل تک قرار دیا ہے شرح معانی الآثار طحاوی رحمہ اللہ الدرالمختار البتہ متاخرین حنفیہ اس کے قائل نہیں۔
امداد الفتاویٰ جلد اول ص ۵۵۸
مولانا حافظ ثناء اللہ سرہالوی فاضل مدینہ یونیورسٹی لاہور
(الاعتصام جلد ۲۴ ش ۴۳)