مسلمان تین طریق سے نماز پڑھتے ہیں اول بطریق اہل حدیث یا شافعی یا حنبلی، دوم بطریق حنفی، سوم بطریق مالکی یا شیعی ارسالِ ید سے کیا تینوں طریق پر نماز ہو جائے گی؟ اگر نہیں تو صحیح طریقہ کونسا ہے؟ اختلاف کب سے شروع ہوا؟ بانی کون تھا؟ خصوصاً طریقہ حنفیہ کا بلا رفع یدین و آمین بالجہر۔ افسوس جمع احادیث سے اتنا فائدہ بھی نہ ہوا کہ نماز بطریق صحیح بلا اختلاف معلوم ہو جاتی؟ (قاسم علی لدھیانوی)
حدیث شریف میں ہے صلوا کما راتیمونی اصلی (میری طرح نماز پڑھو) اس حدیث کے موافق جو فرقہ مطابق سنت صحیحہ کے پڑھے گا اس کی صحیح ہوگی۔ سنت صحیح کیا ہے؟ اس کی تحقیق آسان ہے کتب حدیث باب صفۃ الصلوٰۃ سامنے رکھ کر دیکھ لیں۔ جس کی نماز اس باب کے مطابق ہوگی وہ صحیح ہوگی۔ اختلاف صحابہ کرام کے ملکوں میں انتشار ہونے سے پیدا ہوا ہے۔ حنفی طریقہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایت پر مبنی ہے جس میں رفع یدین وغیرہ کا ذکر نہیں، حنفی عدم ذکر سے عدم شے سمجھتے ہیں۔ اہل حدیث وغیرہ عدم ذکر سے عدم شے نہیں سمجھتے یہ نتیجہ فہم کا ہے۔ اس معمولی اختلاف سے آپ جمع احادیث پر افسوس کرتے ہیں تو اہلِ قرآن کے اختلاف پر کیا کہیں گے جو آج باوجود قرآن موجود ہونے کے اشد اختلاف میں پھنسے ہوئے ہیں ایک فریق پانچ پڑھتا ہے۔ تو دوسرا تین ایک فریق دو رکعتیں پڑھتا ہے۔ تو دوسرا ایک، ایک فریق دو سجدے کرتا ہے۔ تو دوسرا ایک، اسی طرح اشد ترین اختلافات ان اہل قرآن میں ہیں جو قرآن مجید کو یکجا جمع پاتے ہیں اور دعویٰ کرتے ہیں کہ قرآن مفصل اور مبین ہے۔ اصل یہ اختلاف کہ اختلافِ فہم بھی ایک حد تک موجب اختلاف عمل ہوتا ہے۔ جواپنی حد پر رہے تو قابل عمل ہے۔ (فتاویٰ ثنائیہ جلد اول ص ۶۳۳)