سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(186) تارک صلوٰۃ کے لیے جولفظ شرک اور کفر کا حدیث میں آیا ہے..الخ

  • 4617
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-03
  • مشاہدات : 1429

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

تارک صلوٰۃ کے لیے جولفظ شرک اور کفر کا حدیث میں آیا ہے، تہدیداً ہے یاد ہی ظاہری معنی مراد ہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جاننا چاہیے کہ تارکِ صلوٰۃ دو قسم ہیں ایک تارک منکر وجوب و فرضیت نماز، دوسرا بتکاسل و سستی، پس قسم اول تو خارج ملت اسلام سے ہے۔ اور واجب القتل ہے اگر توبہ نہ کرے تو کافر حقیقی ہے، اماقسم ثانی اس پر اطلاق صرف اسم کفر از روئے حدیث ثابت ہے۔ چنانچہ امام نووی رحمہ اللہ نے اسی طرح باب باندھا ہے۔

باب (۱) بیان اطلاق اسم الکفر علی من ترک الصلوٰۃ عن جابرؓ یقول سمعت النبی ﷺ یقول ان بین الرجل وبین الشرک والکفر ترک الصلوٰۃ فمن ترکھا فقد کفررواہ مسلم وعن بریدۃ قال قال رسول اللہ ﷺ العھد الذی بیننا بینھم الصلوٰۃ فمن ترکھا فقد کفر رواہ الترمذی۔ لیکن یہ کفر کفر حقیقی نہیں، بلکہ کفران عمل میں معدود ہے۔ کیوں کہ بہت آیات و احادیث صریحہ صارفہ معنی حقیقی سے وارد ہیں۔ قال (۲) الامام البخاری رحمۃ اللہ علیہ باب المعاصی من امر الجاھلیۃ ولا یکفر صاحبھا بارتکابھا الا بالشرک لقول اللہ تعالیٰ ان اللّٰہ لا یغفران یشرک بہ ویغفر مادون ذلک لمن یشاء وان طائفتان من المومنین اقتتلوا فاصلحوا بینھما فسماھم المومنین انتھی وقد قال النبی ﷺ وقتال المسلم کفرو عن انس قال قال رسول اللہ ﷺ ثلاث من اسل الایمان الکف عمن قال لا الہ الا اللہ لا تکفرہ بذنب ولا تخرجہ من الاسلام بعمل والجھاد ماض رواہ ابوداؤد وعن جابر قال قال رسول اللہ ثنتان موجبتان قال رجل یا رسول اللہ ما الموجبتان قال من مات یشرک باللہ شیئا دخل النار ومن مات لا یشرک باللہ شیئا دخل الجنۃ رواہ مسلم۔ وعن عثمان قال قال رسول اللہ ﷺ من مات وھو یعلم انہ لا الہ الا اللہ دخل الجنۃ رواہ مسلم وعن انس قال قال رسول اللّٰہ ﷺ قال اللہ تعالیٰ یا ابن اٰدم ما دعوتنی ورجوتنی غفرت لک علی ماکان فیک ولا ابالی یا ابن اٰدم لوبلغت ذنوبک عنان السماء ثم استغفرتنی غفرت لک ولا ابالے یا ابن اٰدم انک لو لقیتنی بقراب الارض خطایا ثم لقیتنی لاتشرک فی شیئا لا تیتک بقرابھا مغفرۃ رواہ الترمذی وحسنہ۔ پس جمہور محققین بہ سبب ان آیات و احادیث موجبات رحمت کے حدیث فمن ترکھا فقد کفر کو محمول برکفر حقیقی نہیں کرتے اور یہی ہے مختار ائمہ ثلاثہ و جماہیر سلف کا قال (۱) الامام النووی اما تارک الصلوٰۃ فان کان منکر الوجوبھا فھو کافر باجماع المسلمین خارج من ملۃ الاسلام الا ان یکون قریب العھد بالاسلام وان کان ترکہ تکا سلامع اعتقاد وجوبھا کما ھو حال کثیر الناس فقد اختلف العلماء فیہ فیذھب مالک والشافعی وابو حنیفۃ وجماھیر من السلف والخلف الی انہ لایکفر بل یفسق ویستتاب انتھی۔

۱:  جو آدمی نماز چھوڑ دے اس پر لفظ ’’کافر‘‘ کا اطلاق ہوسکتا ہے۔ جابر کہتے ہیں کہ میں نے نبیﷺ سے سنا آپ نے فرمایا کہ آدمی اور کفر و شرک کے درمیان حد فاصل نماز کا چھوڑنا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ وہ عہد جو ہمارے اور ان کے درمیان ہے نماز کا ہے۔ جس نے اس کو چھوڑ دیا، اس نے کفر کیا۔

۲:  امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا ان جاہلیت کے گناہوں کا باب جن کا مرتکب کافر نہیں ہوتا، ماسوائے شرک کرنے کے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا، اللہ کسی کو شرک نہیں بخشے گا۔ اور جو گناہ ان کے سوا ہیں، وہ جسے چاہے بخش دے۔ اگر ایمانداروں کی دو جماعتیں آپس میں لڑیں تو ان میں صلح کرا دو۔ تو ان دونوں کو مومن قرار دیا۔ نبیﷺ نے فرمایا: مسلمان سے لڑنا کفر ہے۔ آپ نے فرمایا تین باتیں ایمان کا اصل ہیں۔ جو لا الہ الا اللہ کہے۔ اس سے رک جانا، اس کو کافر نہ کہنا۔ کسی عمل کی وجہ سے کافر قرار نہ دینا اور جہاد جاری ہے۔ آپ نے فرمایا دو چیزیں واجب کرنے والی ہیں۔ کسی نے پوچھا واجب کرنے والی کیا ہیں۔ آپ نے فرمایا جو اللہ کے ساتھ شرک کرے گا۔ دوزخ میں جائے گا۔ اور جو شرک نہیں کرے گا۔ جنت میں داخل ہوگا۔ آپ نے فرمایا کہ جو اس حال میں مرے کہ وہ جانتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ جنت میں داخل ہوگا۔ آپ نے فرمایا: جس نے لا الہ الا اللہ کہا وہ جنت میں داخل ہوگا۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔ اے آدم کے بیٹے جب تک تو مجھ کو پکارتا رہے گا اور امید رکھے گا۔ میں تجھے بخشتا جاوں گا خواہ تیرے عمل کیسے ہوں مجھے اس بات کی پرواہ نہیں اگر تیرے گناہ آسمان کے کناروں تک پہنچ جائیں۔ پھر تو مجھ سے بخشش مانگے تو میں تجھے بخش دوں گا۔ اے ابن آدم مجھے اس بات کی پرواہ نہیں اگر تو گناہوں سے بھری ہوئی زمین لے کر آئے اور تو میرے ساتھ شریک نہ ٹھہراتا ہو تو میں تیرے پاس اتنی ہی بخشش لے کر آؤں گا۔

۱:  امام نووی نے کہا اگر کوئی نماز کے وجوب کا منکر ہو تو وہ باتفاق مسلمین کافر ہے۔ ملت اسلامیہ سے خارج ہے۔ مگر یہ کہ وہ بھی نیا نیا مسلمان ہوا ہو۔ اور اگر اس کو سستی کی بنا پر چھوڑے اور اس کے وجوب کا قائل ہو، جیسا کہ اکثر لوگوں کا حال ہے۔ تو علماء کا اس میں اختلاف ہے۔ مالک، شافعی، ابوحنیفہ اور جمہور کے نزدیک وہ کافر نہیں ہے بلکہ فاسق ہے۔ اس سے توبہ کرائی جائے۔

علاوہ ازیں بنا بر مذہب سلف صالحین وائمہ متکلمین اعمال شرط کمال ایمان بالنظر الی اللہ ہیں نہ شرط صحتِ ایمان جیسا کہ مذہب معتزلہ کا ہے۔ قال الحافظ ابن حجر فی الفتح المعتزلۃ قالوا ھو العمل والنطق والاعتقاد والفارق بین المعتزلۃ وبین السلف انھم جعلوا الاعمال شرطا فی صحتہ والسلف جعلوھا شرطا فی کمالہ وھذا کلہ بالنظر الی ما عند اللہ تعالیٰ۔ پس بناپر مذہب سلف تبرک عمل مثل نماز خارج نفس ایمان سے نہ ہوگا۔ غایت ما فی الباب کمالیت سے خارج ہوگا۔ اس لیے پیغمبرﷺ نے فرمایا: صلوا خلف کل برو فاجروان عمل الکبائر رواہ ابوداؤد۔ہاں فی زماننا حسب مصلحت وقت تہدیداً تارک صلوٰۃ کو مطلق کافر کہنا جائز ہے، نہ یہ کہ مانند کفار غسل و تجہیز و تکفین و نماز جنازہ سے محروم کیا جائے۔ غایۃ الامر بخیال موعظت عوام امام محلہ و صلحاء لوگ اس کے جنازہ پر حاضر نہ ہوں۔ واللہ اعلم بالصواب

(فتاویٰ نذیرہ جلد ۱، ص ۵۴۵)

 


فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 04 ص 269

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ