سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(181) ماعت میں بار بار پاؤں کو جوڑنا منع ہے؟

  • 4612
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-03
  • مشاہدات : 1038

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

زید کہتا ہے کہ جماعت میں بار بار پاؤں کو جوڑنا منع ہے۔ عمرو کہتا ہے بار بار پاؤں جوڑنے میں نقص نماز نہیں بلکہ نمازوں کو کامل کرنا ہے۔ اگر کوئی حدیث اس بارہ میں ہے مطلق فرمائیں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

بار بار ملانے کا اگر یہ مطلب ہے کہ قیام میں نہیں ملائے جاتے رکوع میں ملائے جاتے ہیں۔ پھر سجدہ سے اپنی جگہ سے ہٹائے جاتے ہیں پھر اُٹھ کر ملائے جاتے ہیں جیسے جاہلوں کی عادت ہے ایسا جدا کرنا اور ملانا تو ٹھیک نہیں کیوں کہ نماز میں بلاوجہ پاؤں کو اِدھر اُدھر کرنا ناجائز ہے۔ بلکہ تمام نماز میں پاؤں ایک جگہ رکھنے کی کوشش کرنی چاہیے تاکہ نماز میں فضول حرکت نہ ہو۔ ہاں اگر اتفاقیہ پاؤں اِدھر اُدھر ہو جائے تو یا درمیان صف سے کوئی شخص نکل جائے تو ایسی صورت میں ملانا ضروری ہے اس کے لیے عام حدیث آئی ہے جو صف کو ملائے خدا اس کو ملائے گا۔ 

(مشکوٰۃ تسویۃ الصف فصل ۲)

اگر کوئی شخص جہالت کی وجہ سے پاؤں کو ہٹاتا جائے اوردوسرا پاؤں کو پھیلاتا ہوا اس کے نزدیک کرتا چلا جائے یہ بھی ٹھیک نہیں کیوں کہ نمازی کو حکم ہے کہ دوسرے نمازی کے کندھے سے اپنا کندھا اور پاؤں سے پاؤں ملائے۔ پس اس کو چاہیے کہ اپنا پاؤں اپنے کندھے کی سیدھ میں رکھے تاکہ دوسرے کے کندھے اور پاؤں سے مل سکے۔ اب جو شخص اپنا پاؤں اپنے کندھے کی سیدھ میں رکھے کرلیتا ہے۔ وہ حد کو توڑتا ہے۔ پس دوسرا اپنی حد کو تور کر اس حکم کا خلاف کیوں کرتا ہے کہ خواہ مخواہ اپنا پاؤں اس کے نیچے کرتا جاتا ہے۔ اور اپنی نماز میں بھی خلل ڈالتا ہے۔ ملانا صرف اسی حد تک ہے۔ جو شرع نے اس کے لیے مقرر کی ہے نہ کہ دوسرے کے نیچے داخل ہو جائے اور بعض جاہل پاؤں خوب چوڑے کرتے رہتے ہیں اور کندھوں کا خیال ہی نہیں کرتے۔ کندھوں کے اندازے سے پاؤں بالکل چورے نہ کرنے چاہئیں تاکہ پاؤں اور کندھے دونوں مل سکیں۔ عبداللہ امرتسری روپڑی

(فتاویٰ اہل حدیث ص۱۹۹)

 

فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 04 ص 264

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ