کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ تارک الصلوٰۃ کافر ہے یا نہیں اور حدیث میں من ترک الصلوٰۃ متعمداً فقد کفر کے کیا معنی ہیں؟ بینوا توجروا۔
تارک الصلوٰۃ کے کافر ہونے اور نہ ہونے میں علماء کرام مختلف ہیں علامہ شوکانی نیل الاوطار میں لکھتے ہیں:
ولا خلاف بین المسلمین فی کفر من ترک الصلوٰۃ منکر الوجوبھا الا ان یکون قریب عھد بالاسلام اولم یخالط المسلمین مدۃ یبلغہ فیھا وجوب الصلوٰۃ وان کان ترکہ لھا تکاسلا مع اعتقادہ لوجوبھا کما ھو حال کثیر من الناس فقد اختلف الناس فی ذلک فذھبت العترۃ والجماھیر من السلف والخلف منھم مالک والشافعی الٰی انہ لا یکفر بل یفسق فان تاب والا قتلناہ حد اکالزانے المحصن ولکنہ یقتل بالسیف وذھب جماعۃ من السلف الٰی انہ یکفر وھو مروی عن علی بن ابی طالب علیہ السلام وھو احدی الروایتین عن احمد بن حنبل وبہ قال عبداللّٰہ بن المبارک واسحاق بن راھویہ وھو وجہ لبعض اصحاب الشافعی وذھب ابوحنیفۃ وجماعۃ من اھل الکوفۃ والمزنی صاحب الشافعی الا انہ لا یکفرو لا یقتل بل یغرو یحبس حتی یصلی انتھی۔
یعنی جو شخص نماز کے وجوب کا منکر ہو کر نماز کو ترک کرے وہ بالاتفاق کافر ہے اس کے کفر میں مسلمانوں کے درمیان اختلاف نہیں مگر ہاں جو شخص نو مسلم ہو یا مسلمانوں کے ساتھ رہنے کا اتفاق نہ ہوا ہو تو اس کو جب تک نماز کے وجوب کی خبر نہ پہنچے تب تک وہ کافر نہیں ہوسکتا اور جو شخص نماز کے وجوب کا عقیدہ رکھ کر بہ سبب کاہلی اور غفلت کے نماز کو ترک کرے جیسا کہ بہت سے لوگوں کا حال ہے۔ سو ایسے تارک الصلوٰۃ کے کافر ہونے اور نہ ہونے میں لوگوں کا اختلاف ہے پس عترت اور امام مالک اور امام الشافعی اور جماہیر سلف و خلف کا مذہب یہ ہے کہ ایسا شخص کافر نہیں ہے بلکہ فاسق ہے وہ اگر توبہ کرے فبہا ورنہ اس کو قتل کرنا چاہیے اور اس کی یہی حد ہے جیسا کہ زانی محصن کی حد قتل ہے مگر ایسے تارک الصلوٰۃ کو تلوار سے قتل کرنا چاہیے اور سلف میں سے ایک جماعت کا یہ مذہب ہے کہ وہ کافر ہے اور یہی مذہب مروی ہے۔ حضرت علی سے اور امام احمد سے ایک روایت میں یہی منقول ہے اور عبداللہ بن مبارک اور اسحق بن راہویہ کا بھی یہی قول ہے اور بعض اصحاب شافعی کا بھی یہی مذہب ہے۔ اور امام ابو حنیفہ اور ایک جماعت اہل کوفہ کا مذہب یہ ہے کہ وہ نہ کافر ہے اور نہ وہ قتل کیا جائے گا۔ بلکہ اس کی تعزیر کی جائے گی۔ اور جب تک وہ نماز نہیں پڑھے گا تب تک وہق ید میں رکھا جاوے گا۔ اس کے بعد علامہ شوکانی نے لکھا ہے کہ حق یہ ہے کہ ایسا تارک الصلوٰۃ کافر ہے اور وہ قتل کیا جائے گا، اس کا کافر ہونا تو اس وجہ سے حق ہے کہ احادیث صحیحہ سے ثابت ہے کہ شارع نے ایسے تارک الصلوٰۃ کو کافر کہا ہے۔ اور جو لوگ اس کے کافر ہونے کے قائل نہیں ہیں وہ جس قدر معارضات وارد کرتے ہیں ان میں سے ایک بھی ہم کو لازم نہیں آتا کیوں کہ ہم کہتے ہیں کہ جائز ہے کہ کفر کی بعض قسمیں ایسی ہوں جو مغفرت و استحقاق شفاعت سے مانع ہوں نہ جیسا کہ اہل قبلہ کا کفر بوجہ ایسے گناہوں کے جن کو شارع نے کفر کہا ہے پس اس بنا پر ان تاویلات کی کچھ حاجت نہیںہے، جن میںلوگ پڑتے ہیں انتہی کلام الشوکانی مترجماً ۔ میں کہتا ہوں کہ بلاشبہ علامہ ممدوح کی یہ تحقیق احق بالقبول ہے اس واسطے کہ اس تحقیق پر احادیث مختلفہ میں بلا کسی تاویل کے جمع و توفیق ہو جاتی ہے۔ مثلاً حدیث :
من (۱) ترک الصلوٰۃ متعمدا فقد کفرا اور حدیث العھد الذی بیننا وبینھم الصلوٰۃ فمن ترکھا فقد کفر اور حدیث بین (۲) الرجل وبین الکفر ترک الصلوٰۃ رواہ الجماعۃ الا البخاری والنسائی اور حدیث کان (۳) اصحاب رسول اللہ ﷺ لا یرون شیئا من الاعمال ترکہ کفر غیر الصلوٰۃ رواہ الترمذی سے صاف اور صریح معلوم ہوتا ہے کہ تارک الصلوٰۃ کافر ہے اور آیۃ ان اللہ لا یغفر ان یشرک بہ ولیغفرنا دون ذلک اور ومن لم یات بہن فلیس لہ عند اللہ عہد ان شاء عذبہ وان شاء غفرلہ رواہ احمد و ابوداؤد مالک فی الموطا۔ اور حدیث من شھد ان لا الہ الا اللہ وحدہٗ لا شریک لہ وان محمد اعبدہٗ ورسولہٗ وان عیسیٰ عبداللہ وکلمۃ القاہا الیٰ مریم و روح منہ والجنۃ حق النار حق ادخلہ اللہ الجنۃ علی ماکان من العمل متفق علیہ۔ اور حدیث مامن عبد یشھدان لا الہ اللہ وحدہ ان محمد اعبدہ ورسولہٗ الاحرمہ اللہ علی النار قال (ای معاذ اللہ) افلا اخبر بھا الناس الحدیث متفق علیہ۔ اور حدیث شفاعت فہی نائلۃ ان شاء اللہ من مات من امتی لا یشرک باللہ شیئًا رواہ مسلم وغیرہ ذلک من الاحادیث سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ تارک الصلوٰۃ کافر نہیں ہے بلکہ وہ مغفرت الٰہی و شفاعت نبوی و دخولِ جنت کا مستحق ہے۔ پس علامہ ممدوح کی تحقیق پر ان احادیث مختلفہ میں کسی کی تاویل کرنے کی کچھ ضرورت نہیںہے بلکہ یہ تمام احادیث اپنے ظاہر معنی پر محمول ہیں کیوں کہ جن احادیث سے تارک الصلوٰۃ کا کفر ثابت ہوتا ہے۔ ان احادیث سے وہ بلاشبہ کافر ہیں۔ اور ان کو کافر کہنا روا ہے۔ مگر ہاں تارک الصلوٰۃ کا کفر ایسا نہیں ہے کہ جس کی وجہ سے ملت اسلام سے خارج ہو جائے اور مغفرت و شفاعت و دکول جنت کا مستحق نہ رہے بلکہ تارک الصلوٰۃ کا کفر وہ کفر ہے جس کی وجہ سے نہ وہ ملت اسلام سے خارج ہوتا ہے۔ اور نہ استحقاق مغفرت و شفاعت و دخولِ جنت سے محروم ہوتا ہے اور ہاں واضح رہے کہ ایسا کفر جو نہ مخرج از ملت اسلام ہو اور نہ مانع از استحقاق مغفرت و شفاعت احادیث سے ثابت ہے۔ دیکھو حدیث متفق علیہ سباب المسلم فسوق و قتالہ کفر، اور حدیث متفق علیہ لیس رجل ادعیٰ لغیرا بیہ وہو یعلمہ الاکفر۔ اور حدیث مسلم اثنتان فی الناس ہما بہم کفر الطعن فی النسب والنیاحتہ علی المیت۔ اور حدیث صحیح ایما عبدابق من موالیہ فقد کفر۔ اور حدیث صحیح من قال لاخیہ یا کافر فقد باء بہا وغیر ذلک من الاحادیث۔ ان تمام احادیث میں کفر سے بالاتفاق اسی قسم کا کفر مراد ہے۔ قال الشوکانی الکفر نواع منہا مالا ینا فی المغفرۃ لکفر اہل القبلۃ ببعض الذنوب التی سماہا الشارع کفرا وہو یدل علی عدم استحقاق کل تارک الصلوٰۃ للتخلیدنی النار وقال سبب یریحک فی مضیق التاویل توہم الملازمۃ بین الکفر و عدم المغفرۃ ولیست بحلیۃ وانتفاء کلیتہا یریحک من تاویل کثیر من الاحادیث وقال من سماہٗ رسول اللہ ﷺ کافرا سمیناہ کافرا ولا نزید علی ہذا المقدار ولا تناول بشئی منہا لعدم الملجئی الیٰ ذلک واللہ تعالیٰ اعلم۔
کتبہ محمد عبدالرحمن المبارکفوری عفا اللہ عنہ سید محمد نذیر حسین۔
فتاوی نذیریہ جلد اول ص ۲۲۶
۱) جو جانتے بوجھتے نماز چھوڑ دے وہ کافر ہوگیا۔
۲) وہ عہد جد ہمارے اور ان کے درمیان ہے۔ نماز کا ہے جس نے اس کو چھوڑ دیا وہ کافر ہوگیا۔
۳) رسول اللہ ﷺ کے صحابہ نماز کے علاوہ کسی عمل کے ترک کو کفر نہیں سمجھتے تھے۔