حدیث امامہ بنت زینب رضی اللہ عنہا منسوخ ہے یا نہیں؟
نہیں۔ ردالمحتار ص ۶۸۳ میںہے۔ قدورد (۱)فی الصحیحین وغیرھما عن ابی قتادہؓ ان النبی ﷺ کان یصلی وھو ما حل امامۃ بنت زینب بنت النبی ﷺ فاذا سجدو ضعھا وقد اجیب عنہ باجوبۃ منھا ماذکرہ الشارح انہ منسوخ بما ذکرہ من الحدیث دھو مردودیان حدیث ان فی الصلوٰۃ لشغلا کانفی قبلالھجرۃ وقصۃ امامۃ بعدھا ومنھا ما فی البدائع انہ ﷺ لم یکرہ منہ ذلک لانہ کان محتاجا الیہ لعدم من یحفظھا او للتشریع بالفعل ان ھذا غیر مفسد ومثلہ ایضافی زماننا لا یکرہ لو احد منا فعلہ عند الحاجۃ اما بدونھا فمکروہ وقد اطال المحقق ابن امیر الحاج فی الحلیۃ فی ھذا المحل ثم قال ان کونہ للتشریع بالفعل ھو الصواب الذی لا یعدل عنہ کما ذکرہ النووی فانہ ذکر بعضھم انہ بالفعل اقوی من القول ففعلہ ذلک لبیان جواز الخ اور تعلیق الممجد میںہے۔ قال النوویادعی بعض المالکیۃ انہ منسوک وبعضھم انہ من الخصائص و بعضھم انہ لضرورۃ وکلھا دعاوی بالملۃ مردودۃ لا دلیل علیھا الخ ۔ (فتاویٰ عمر پوری ص۱۲)
ّ۱: بہ تحقیق آیا ہے۔ صحیحین وغیرہ میں ابو قتادہ سے کہ نبیﷺ نماز پڑھاتے اور آں حالیکہ گود میں اٹھائے ہوئے تھے امامہ بیٹی زینب کو یعنی اپنی نواسی کو پس جب سجدہ کرتے رکھ دیتے اس کو اور جب کھڑے ہوتے اٹھا لیتے اس کو اور جواب اس کا کئی طرح پرویا گیا ہے۔ ایک ان میں وہ ہے جس کو شارح نیذکر کیا ہے کہ یہ حدیث منسوخ ہے۔ اُس حدیث سے کہ ذکر کیا اس کو اور یہ جواب مردود ہے۔ اس طرح پر کہ حدیث ان فی الصلوٰۃ لشغلاً قبل ہجرت کے تھی۔ اور قصہ امامہ کا بعد ہجرت کے ہے۔ اور دوسرا جواب وہ ہے جو بدائع میں ہے کہ آنحضرت ﷺ سے یہ فعل مکروہ نہیں۔ اس لیے کہ آپ کو اس کی طرف حاجت تھی۔ چوں کہ نہ تھا کوئی شخص کہ حفاظت کرتا امامہ کی یا واسطے دکھلانے مشروعیت اس فعل کی کہ یہ مفسد نماز نہیں ہے۔ اور مسل اس کے ہمارے زمانہ میں بھی مکروہ نہیں۔ کسی کو کرنا اُس کا وقت ضرورت کے لیکن بغیر حاجت کے پس مکروہ ہے۔ الخ اور بتحقیق تقریر طویل کی ہے۔ محقق ابن امیر حاج نے حلیہ میں اس مقام میں پھر کہا ہے کہ بتحقیق تشریع کے لیے کرنا وہی صواب ہے۔ عدول یعنی نہ ماننا جائز نہیں جیسا کہ ذکر کیا اس کو نوویؒ نے پس تحقیق ذکر کیا ہے بعض لوگوں نے کہ فعل سے مشروع سے مشروع ہونا قوی تر ہے۔ قول سے تو کرنا آپ کا اس فعل کوبیان جواز کے لیے تھا۔