نماز استسقاء
جب قحط سالی ہو جائے تو جنگل میں نکل کر دو رکعت نماز پڑھنی چاہیے۔ کسی نیک آدمی کو جس پر زیادہ حسنِ ظن ہو اس کو نماز کے لیے آگے کرنا چاہیے۔ وہ دعا مانگے اور اس کے ساتھ سب دعا مانگیں۔ اس نمازمیں قرأۃ بلند آواز سے پڑھی جاتی ہے۔ اس سے پہلے یا پیچھے مختصر سا خطبہ پڑھے جس میںلوگوں کو گناہ اور نافرمانی سے ڈرائے اور توبہ تائب ہونے کی ترغیب دے کیوں کہ آفت گناہوں کی شامت سے ہے۔ اس نماز کا وقت طلوع آفتاب کے بعد متصل ہے۔ بہت عاجزی اور انکساری کے ساتھ شہر گاؤں سے باہر سب لوگ نکلیںدعائیں مختلف آئی ہیں۔مختصر سی دعائیں مندرجہ ذیل ہیں:
اَللّٰھُمَّ اسْقِ عِبَادَکَ وَبَھَائِمَکَ وَانْشُرْ رَحْمَتَکَ وَاَحْیِ بَلَدَکَ الْمَیتْ۔
’’ اے اللہ اپنے بندوں اور چار پاؤں کو پانی پلا اور اپنی رحمت پھیلا اور اپنے مردہ شہرکو زندہ کر۔‘‘
اس نماز کی خصوصیات سے دو باتیں ہیں : 1 یہ کہ دعا الٹے ہاتھوں سے مانگی جاتی ہے۔ اور ہاتھوں کواُٹھانے میں مبالغہ کیا جاتا ہے یہاں تک کہ بغلیں نظر آنے لگیں 2 یہ کہ اس دعا کرنے میں کرتے چادر الٹائی جاتی ہے جس کی صورت یہ ہے کہ چادر کو کندھوں پر رکھ کر دائیںہاتھ سے چادر کا بایاں پلو پکڑکندھوں پر رکھ کر دائیں ہاتھ سے چادر کا بایاں پلو پکڑ کندھوں سے چادر کو پھیر دیںخواہ اوپر کی طرف سے پلو پکڑیں یا نیچی طرف سے۔ اگر اوپر کی طرف کے پلو پکڑیں گے تو اندر باہر آجائے گا۔ اور دایاں بائیں ہو جائے گا۔اگر نیچے کی طرف کے پلو کو پکڑیں گے تو اوپر نیچے ہو جائے گا اور دایاں بائیں ہو جائے گا۔ اندر باہر نہیںہوگا اور اگر چاہیں تو نیچے کے دونوں پلو دایاں دائیں ہاتھ سے بایاں ہاتھ سے پکڑ کر چادر کی اوپر کی طرف نیچے کردیں اور اندر کو باہر۔
دعا بہت عاجزی سے مانگنی چاہیے کیوں کہ حدیث میں ہے کہ سلیمان علیہ السلام کے زمانہ میں قحط سالی کے موقع پر ایک چیونٹی نے دعا کی بارگاہِ الٰہی میں قبول ہوئی انسان تو خدا کے نزدیک بڑی عزت رکھتا ہے۔ بشرطیکہ خدا کے سامنے اپنے گناہوں سے دل سے تائب ہو خالی زبان سے استغفار کا کچھ فائدہ نہیں۔ یہود نے اپنے نبی کی معیت میں استسقاء کی دعا کی تو اللہ نے نبی کی طرف وحی کی کہ ان لوگوں کو کہہ دو انہی ہاتھوں سے ظلم کئے ہیں۔ اور یہی میرے سامنے پھیلاتے ہو مجھے تمہارے مانگنے سے رحم نہیں آتا بلکہ تم پر میرا غضب زیادہ ہوتا ہے۔ اسی طرح محرومی کی حالت میں لوٹ جاؤ۔ خدا تعالیٰ ہمیں یہود کی طرح محروم نہ کرے۔ آمین
از تنظیم اہل حدیث جلد ۱۸، ش ۳۳