سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(159) اقامت سے پہلے صبح کی دو سنتیں نہ پڑھی جائیں تو..الخ

  • 4590
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 1184

سوال

(159) اقامت سے پہلے صبح کی دو سنتیں نہ پڑھی جائیں تو..الخ
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

اقامت سے پہلے صبح کی دو سنتیں نہ پڑھی جائیں تو وہ سورج نکلنے کے بعد ادا ہوسکتی ہیں۔ میری سمجھ اس مسئلہ پر یہ ہے کہ اگر جماعت ہو رہی ہو تو ترکِ سنت کرکے فرضوں کی اقتداء کرکے اور اگر صبح کا وقت ہو تو بعد فرض ادا کرے۔ چنانچہ مدت تک اس مسئلہ پر عمل رہا۔ چند یوم ہوئے ایک حنفی بھائی نے ابن ماجہ کی حسب ذیل حدیث پیش کی۔

حدثنا عبدالرحمن بن ابراہیم ان النبی ﷺ نام عن رکعتی الفجر فقضا ھما بعد ماطلعت الشمس۔

میرے پاس ابن ماجہ کی شرح قلمی کفایۃ الحاجہ شرح ابن ماجہ موجود تھی۔ اُس کو دیکھا تو اُس میں یہ لکھا ہے:

رجال اسنادہ ثقات الا ان مروان بن معاویۃ الفزاری کان یدلس وقد عنعنہ نعم احتج بہ الشیخان۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

تدلیس کہتے ہیں۔ اپنے ملاقاتی سے ایسے الفاظ کے ساتھ روایت کرے جس سے سماع کا وہم ہو۔ اور حقیقت میں سنا نہ ہو۔ مثلاً عن فلان کہے۔ یاقال فلان کہے۔ ایسی راوی کو مدلس کہتے ہیں۔ مروان بن معاویہ مدلس ہے جس کی روایت عن کے ساتھ ذکر کرنے کی صورت میں بالکل ضعیف ہوتی ہے۔ ہاں اگر سماع کی تصریح کرے تو پھر صحیح ہو جائے گی۔ مگر یہاں عن کے ساتھ روایت کی ہے۔ رہا بخاری اور مسلم کا اس کی روایت کرنا تو وہ سماع کی تصریح کی صورت میں ہے یا مؤید کی صورت میں۔

اس کے علاوہ اس راوی میں ایک اور بھی عیب ہے وہ یہ کہ اپنے استادوں کے مشہور نام بدل کر غیر مشہور ذکر کردیتا ہے۔ جس سے بعض دفعہ ضعیف کو ثقہ سمجھ لیا جاتا ہے۔ یا ضعیف کے ضعف پر پردہ پڑ جاتا ہے۔ یا معلوم ہوتا ہے کہ اس حدیث کے بہت سے طرق ہیں۔ چنانچہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے طبقات المدلسین کے ۱۳، ۱۴ میں اس کا ذکر کیا ہے اور ایسے راوی کی روایت بغیر تحقیق کے نہیں لی جاسکتی۔ اور اس روایت کی حقیقت کا کچھ علم نہیں۔ اس لیے یہ قابل استدلال نہیں۔

اس کے علاوہ اس کے مقابلہ میں حسن حدیث موجود ہے۔ جس سے ثابت ہوتا ہے کہ فجر کی سنتیں رہ جائیں تو فرضوں کے بعد پڑھ لی جائیں۔ تفصیل کے لیے ہمارا رسالہ امتیازی مسائل ملاحظہ ہو۔  (فتاویٰ اہل حدیث ص ۷۷، ۲)

 

فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 04 ص 249

محدث فتویٰ

تبصرے