سوال: السلام علیکم! آج ہفتہ اور عرفہ ہے اور میں نے آج روزہ رکھا ہے مگر ابھی میرے نظر نیچے والے تھریڈ پر پڑی تو کیا میں روزہ کو قائم کروں یا پھر توڑدوں؟ نفلی روزوں کا حُکم اور ہفتہ کا روزہ والسلام علیکم
جواب:
:::::: ایک اور اہم بات :::::: اس دفعہ یعنی ذی الحج 1432 ہجری میں بھی عرفات کا دِن ہفتے کو آ رہا ہے ، اس لیے سب ہی قارٕئین کی خصوصی توجہ اس طرف مبذول کروانا چاہتا ہوں کہ اس دفعہ یومءعرفات کا روزہ نہ رکھا جإئے ، کیونکہ ہفتے کے دِن نفلی روزہ رکھنے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے بہت سختی سے منع فرمایا ہے ، ارشاد فرمایا ہے کہ
: ہفتے کے دِن کا روزہ مت رکھو ، سوائے فرض روزے کے اگر تُم سے کِسی کو انگور کی لکڑی یا درخت کی جڑ کے عِلاوہ اور کُچھ نہ ملے تو اِسی کو چُوس لو ))))) نہ ہی اس حکم سے کسی استثناء کی گنجإئش ہے کہ ہفتے کے ساتھ کسی اور دِن کا روزہ ملا لیا جإئے تو پھر ہفتے کا نفلی روزہ رکھا جا سکتا ہے ، اس موضوع پر جنوری 2004 میں میں نے ایک تحقیقی کتاب لکھی تھی ، ان شاء اللہ جلد ہی اسے ری فارمیٹ کر کے قارٕئین کے لیے پیش کروں گا ، ان شاء اللہ اُس کا مطالعہ تمام اشکال رفع کرنے کا سبب ہو گا ، فی الحال یہ سمجھ لیجیے کہ ہفتے کا نفلی روزہ نہیں رکھا جانا چاہیے خواہ اس کی کتنی ہی فضیلت بیان ہوٕئی ہو ، والسلام علیکم۔
علمائے کرام نے ہفتہ کے روزہ کی ممانعت کو کراہت پر محمول کیا ہے اور اس کی وجہ یہ بیان کی ہے کہ چونکہ یہود اس دن کی تعظیم کرتے تھے، اور کسی دن کا مخصوص روزہ رکھنا اس کی تعظیم ہے، لہٰذا یہود کی مخالفت کی جائے۔
امام ترمذی یہ حدیث مبارکہ ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں:
ومعنى كراهته في هذا أن يخص الرجل يوم السبت بصيام لأن اليهود تعظم يوم السبت ... جامع الترمذي: 744
واضح رہے کہ امام ابو داؤد صاحب السنن نے ہفتہ کے روزہ کی ممانعت والی حدیث کو منسوخ جبکہ بعض علماء مثلاً شیخ ابن باز وغیرہ نے اسے ضعیف قرار دیا ہے۔
تو جب ہفتہ کے دن کا انفرادی روزہ نہ رکھا جائے تو بلکہ دوسرے دنوں کے ساتھ ملا کر یا عادتاً یا کسی اور وجہ سے (مثلاً یوم عرفہ، شوال، عاشوراء یا ایام بیض وغیرہ کے روزے) ہفتے کا روزہ رکھا جائے تو ہفتے کی تعظیم والی علّت ختم ہوجاتی ہے لہٰذا روزہ انفرادی روزے کے علاوہ روزہ رکھنا جائز ہوا۔
ہفتہ کے ساتھ دوسرا دن ملانے کے جواز کی دلیل تو صحیح بخاری کی سیدنا ابو ہریرہ اور سیدہ جویریہ رضی اللہ عنہا والی درج ذیل احادیث مبارکہ ہیں۔
کہ ’’نبی کریمﷺ جمعہ کے دن سیدہ جویریہ کے گھر آئے تو انہوں نے روزہ رکھا ہوا تھا، آپ نے دریافت فرمایا کہ کیا تم نے کل (جمعرات) کا روزہ رکھا تھا؟ انہوں نے عرض کیا کہ نہیں، پوچھا کہ کیا تمہارا کل (ہفتہ کو) روزہ رکھنے کا پروگرام ہے؟ عرض کیا کہ نہیں! فرمایا کہ پھر یہ روزہ توڑ دو۔‘‘
جبکہ ہفتہ کے دن کا روزہ عادتاً رکھنے کے جواز کی دلیل سیدنا داؤد کے روزوں کے متعلق صحیحین کی یہ روایت بھی ہے: